Aaj News

بدھ, جنوری 08, 2025  
07 Rajab 1446  

خصوصی عدالت کیس: انسداد دہشتگردی کا قانونی فورم ہوتے ہوئے ایگزیکٹو خود کیسے جج بن سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندو خیل

وزارت دفاع ایگزیکٹو کا ادارہ ہے, آئین واضح ہے کہ ایگزیکٹوعدلیہ کا کردار ادا نہیں کرسکتا، جسٹس جمال مندوخیل
اپ ڈیٹ 07 جنوری 2025 11:29am

سپریم کورٹ میں خصوصی عدالتوں کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا ہے کہ قانونی فورم کے ہوتے ہوئے ایگزیکٹو خود کیسے جج بن سکتا ہے؟

منگل کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے خصوصی عدالتوں کے کیس کی سماعت شروع کی تو وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث روسٹم پر آئے اور دلائل کا آغاز کیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قرار دیا کہ فوج کے ماتحت سویلنز کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے اسفتسار کیا کہ موجودہ کیس میں متاثرہ فریق اور اپیل دائر کرنے والا کون ہے؟

خواجہ حارث نے بتایا کہ اپیل وزارت دفاع کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔

جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وزارت دفاع ایگزیکٹو کا ادارہ ہے، ایگزیکٹو کے خلاف اگر کوئی جرم ہو تو کیا وہ خود جج بن کر فیصلہ کرسکتا ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے، آئین واضح ہے کہ ایگزیکٹوعدلیہ کا کردار ادا نہیں کرسکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل کا مزید کہنا تھا کہ خصوصی عدالتوں کے کیس میں یہ بنیادی آئینی سوال ہے۔

جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی اور فورم دستیاب نہ ہو تو ایگزیکٹو فیصلہ کرسکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قانون میں انسداد دہشتگردی عدالتوں کا فورم موجود ہے، قانونی فورم کے ہوتے ہوئے ایگزیکٹو خود کیسے جج بن سکتا ہے؟

جس پر وکیل خواجہ حارث بولے کہ آپ کی بات درست ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کو صرف مسلح افواج کے ممبران تک محدود کیا گیا ہے۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، آرمی ایکٹ صرف آرمڈ فورسز تک محدود نہیں ہے، اس میں مختلف دیگر کیٹیگریز شامل ہیں، میں آگے چل کر اس طرف بھی آؤں گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 8 (3) افواج کے ڈسپلن اور کارکردگی کے حوالے سے ہے، کیا فوجداری معاملے کو آرٹیکل 8 (3) میں شامل کیا جا سکتا ہے؟ آئین میں سویلنز کا نہیں پاکستان کے شہریوں کا ذکر ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ افواج پاکستان کے لوگ بھی اتنے ہی شہری ہیں جتنے دوسرے۔

جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہی تو سوال ہے کہ افواج پاکستان کے لوگوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیسے کیا جاسکتا ہے؟

اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ بنیادی آئینی حقوق کی بنیاد پر آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کوئی شہری فوج کا حصہ بن جائے تو کیا بنیادی حقوق سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے؟ خصوصی عدالتوں کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 175 سے الگ ہے، کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا؟ کیا کام سے روکنے کے الزام پر اس کو ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے گا؟

خواجہ حارث نے کہا کہ یہ تو آپ نے ایک صورتحال بتائی ہے، اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔

جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ تو سب سے متعلقہ سوال ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس سوال کا جواب بہت سادہ سا ہے، اگر وہ شہری آرمی ایکٹ میں درج جرم کا مرتکب ہوا تو ٹرائل چلے گا، صرف چوکی کے باہر کھڑے ہونے پر تو کچھ نہیں ہوگا۔

سماعت کے اختتام پر حفیظ اللہ نیازی روسٹرم پر آئے تو جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ سیاسی بات کریں گے۔ جس پر حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ میں سیاسی بات بلکل نہیں کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ ملزمان کو فیصلوں کے بعد جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے، ملزمان کوعام جیلوں میں دیگر قیدیوں کو ملنے والے تمام حقوق نہیں دئیے جا رہے، جو سزائیں سنائی گئیں ہیں اس میں وجوہات بیان نہیں کی گئی ہیں۔

سپریم کورٹ نے جیلوں میں نومئی ملزمان کے رویہ کے حوالے سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے رپورٹ طلب کرلی۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تو حکم بھی جیل مینول کے مطابق سلوک کا دیا تھا، پنجاب اور وفاقی حکومت عدالتی حکم کو نہیں مان رہے۔

عدالت نے خواجہ حارث کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔

Supreme Court

CONSTITUTIONAL BENCH

Military Courts