سماجی رہنماؤں کی حکومت سے انسداد تمباکونوشی کے اقدامات کو مزید سخت کرنے کا مطالبہ
ورکرز ایجوکیشن اینڈ ریسرچ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹرمیر ذوالفقار نے ملک سے تمباکو نوشی کے کلچر کو ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جب تک ہم یہ نہیں سمجھتے کہ لوگ سگریٹ کیوں پیتے ہیں ہم زیادہ آگے نہیں بڑھیں گے، ہمیں بنیادی نگہداشت کے بنیادی مراکز صحت کی ضرورت ہے جن میں صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پریکٹیشنرز تربیت یافتہ ہوں۔
چائلڈ اینڈ لیبر رائٹس ویلفیئر آرگنائزیشن کی جانب سے متبادل ریسرچ انشییٹو کے تعاون سے ”پاکستان سے تمباکو نوشی کا خاتمہ ممکن ہے“ کے عنوان سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا جس میں سول سوسائٹی کے اراکین اور کمیونٹی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے طلبا، مزدوروں نے بھی شرکت کی۔
اس موقع پر انہوں نے انسداد تمباکو نوشی کے حوالے سے حکومت کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کو تمباکو نوشی کے خلاف مزید سخت اقدامات اٹھانے چاہیے اور آگاہی مہم میں تیزی لانی چاہیے جبکہ انسداد تمباکو نوشی کے لیے پہلے موجود قوانین پر علمدرآمد کرنا چاہیے۔
ایچ آر س پی سندھ کے وائس چیئرپرسن قاضی خضر نے کہا کہ دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب لوگ تمباکو کے عادی ہیں جن میں سے زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمباکو نوشی سے متعلق صحت کے مسائل سے ہر سال تقریباً 50 لاکھ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور یہ تعداد 2030 تک 80 لاکھ کے لگ بھگ ہونے کا امکان ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمباکو نوشی اور اس کے خطرات ہمارے صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر ایک سنگین بوجھ ہیں۔
قاضی خضر نے کہا کہ اجتماع کا مقصد نہ صرف تمباکو نوشی کے نقصانات اور اسے چھوڑنے کے فوائد کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے۔
شرکا نے کہا کہ تمباکو نوشی پہلے ہی تباہ حال صحت کے نظام پر مزید بوجھ کا باعث بنتی ہے اور حکومت کو مزید قرضوں میں ڈال دیتی ہے، ہر حکومت کا مقصد اپنی ریاست کو سگریٹ نوشی سے پاک ملک بنانا ہونا چاہیے۔