گہری قبروں اور تابوتوں کی ضرورت ختم، برطانوی خاتون نے ’ماحول دوست کفن‘ بنا ڈالا
ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے تباہ کُن اثرات سے فکر مند برطانوی خاتون نے ایک ماحول دوست کفن تیار کیا ہے، خاتون کا دعویٰ ہے کہ یہ کفن تابوت کی ضرورت کو ختم کردے گا۔
برطانیہ میں مغربی یارک شائر کاؤنٹی کی رہائشی ریچل کا کہنا ہے کہ وہ نہیں چاہتیں زمین پر ان کا آخری عمل آلودگی پھیلانے والا ہو۔
موت کے قریب شخص میں ظاہر ہونے والی خوفناک نشانیاں کیا ہیں؟
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مغربی ممالک میں روایتی طریقے سے لاشوں کی تدفین بھی آلودگی کا باعث بن سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق تدفین کیلئے استعمال ہونے والے تابوت اکثر نقصان دہ کیمیکلز سے بنائے جاتے ہیں جبکہ لاشوں کو سڑنے سے بچانے کے لیے فارمل ڈی ہائیڈ استعمال کیا جاتا ہے، یہ ایک زہریلا مادہ ہے جو زمین میں سرائیت کرسکتا ہے۔
گردن کا مساج کروانے والی گلوکارہ موت کے منہ میں چلی گئی
ریچل نے بطور فنکار مقامی طور پر حاصل شدہ اون اور بید کے علاوہ برمبل اور آئیوی نامی پودوں سے اپنی ایک سہیلی کے لیے ’ماحول دوست کفن‘ تیار کیا ہے۔
یہ کفن لاش کو دفنانے کے لیے تابوت کی ضرورت بھی ختم کردیتا ہے۔
ریچل کے لیے یہ کفن ایک فن پارے سے بڑھ کر ہے اور انہوں نے اپنے لیے بھی ایسا ہی کفن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
خاتون کا کہنا ہے کہ 6 فٹ گہری قبر میں لاش دفنانے سے اس کے مکمل طور پر ڈی کمپوز ہونے میں 100 سال تک لگ سکتے ہیں۔
اس وجہ سے انہوں نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں ان کی وفات کے بعد انہیں بایو ڈی گریڈ ایبل کفن میں کم گہری قبر میں دفنایا جائے کیونکہ زمین کی اوپری سطح کی مٹی میں لاش جلدی ڈی کمپوز ہوسکتی ہے۔
ریچل کے مطابق چھ فٹ گہری قبریں کھودنے کا رواج 16ویں صدی میں شروع ہوا تھا، اس وقت یہ خیال کیا جاتا تھا کہ طاعون کی بیماری پھیلنے سے روکنے کیلئے گہری قبریں کھودنا ضروری ہے۔
موت کا وقت بتانے کیلئے مصنوعی ذہانت سے لیس گھڑی تیار
میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانیہ میں ہر سال وفات پانے والے افراد میں سے تقریباً 80 فیصد افراد کی لاشیں جلادی جاتی ہیں۔
تاہم ماحولیات کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے مطابق ایک لاش کو جلانے کے نتیجے میں خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس لندن سے پیرس کی ریٹرن فلائٹ کے دوران پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے برابر ہے۔