Aaj News

پیر, دسمبر 16, 2024  
13 Jumada Al-Akhirah 1446  

شام میں قیدی کی رہائی کی مبینہ جعلی رپورٹ پر سی این این رپورٹر تحقیقات کی زد میں

کہا جاریا ہے کہ سی این این رپورٹر نے قیدی کو آزاد کرانے میں مدد کی
شائع 16 دسمبر 2024 02:55pm
تصویر بشکریہ: ڈیلی میل
تصویر بشکریہ: ڈیلی میل

امریکی نیوز چینل سی این این کی خاتون رپورٹر کلریسا وارڈ کے شامی قیدی کی ڈرامائی رہائی کی رپورٹ پر تحقیقات شروع کر دی گئیں۔ کہا جا رہا تھا کہ انہوں نے شام کے سابق صدر بشار الاسد کی بدنام زمانہ جیلوں میں سے ایک قیدی کو آزاد کرانے میں مدد کی۔ جبکہ قیدی نے دعویٰ کیا کہ اسے تین ماہ تک قید میں رکھا گیا۔

واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں دکھایا گیا کہ قیدی جیل سے باہر آتا ہے تو وہ آسمان کی طرف دیکھنے لگ جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق کلیریسا وارڈ ایک جیل کا دورہ کر رہی تھیں جہاں بہت سے شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان کی ٹیم کو ایک مقفل سیل ملا جس کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔

شام سے روسی خصوصی پرواز کی روانگی، طیارے میں کون تھا؟

رپورٹنگ ٹیم نے مذکورہ جیل کی نظر انداز کے گئے سیل کے اندر ایک آدمی کو کمبل کے نیچے چھپا ہوا پایا۔ اس نے رپورٹر کو اپنا نام عادل غربل بتایا، جس کا تعلق حمص سے ہے جس نے سویلین ہونے کا دعویٰ کیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ صحافی نے اس شخص کو کھانا اور پانی دے کر اسکی مدد کی۔ قیدی نے خاتون رپورٹر کو بتایا کہ اس نے چار دنوں سے کچھ کھایا پیا نہیں ہے۔

ایک شامی حقائق کی جانچ کرنے والی ویب سائٹ Verify-Sy نے اس رپورٹ پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ وہ شخص جسے قیاس کے طور پر کئی مہینوں سے بند کر دیا گیا تھا، جب اس نے پہلی بار آسمان کی طرف دیکھا تو وہ دیکھا ہی چلا گیا۔

بشارالاسد کی جانب سے ٹنوں کے حساب سے ڈالر روس منتقل کئے جانے کا انکشاف

ڈیلی میل کے مطابق حقائق کی جانچ کرنے والے گروپ ویریفائی سائی نے دیکھا کہ غربل نامی شخص صاف ستھرا، اچھی طرح سے تیار اور صحت مند دکھائی دے رہا تھا، جس پر کوئی چوٹ یا تشدد کے آثار نہیں تھے۔ یہ کسی ایسے شخص کے لیے غیر معمولی لگ رہا تھا جس نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے 90 دنوں تک جیل کی تاریک کوٹھری میں رکھا گیا ہے۔

ویریفائی سائی نے گہرائی کے ساتھ اس واقعے کو پرکھا اور بتایا کہ گھربل کے طور پر اس شخص کی شناخت کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ لیکن حمص کے لوگوں سے انہیں پتہ چلا کہ اس کا اصل نام سلامہ محمد سلامہ ہے جسے ابو حمزہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

ڈیلی میل کے مطابق مقامی لوگوں نے مذکورہ شخص کی شناخت شامی فضائیہ کے انٹیلی جنس کے سابق افسر کے طور پر کی، جو صدر بشار الاسد کے ماتحت کام کرتا تھا۔

امریکا کے بعد برطانیہ کا بھی تحریر الشام سے رابطوں کا اعتراف، سفارت خانے کھل گئے

رپورٹ کے مطابق شام میں البیضہ کے علاقے کے افراد نے بتایا کہ ابو حمزہ اکثر ایک چوکی پر کام کرتے تھے، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے جانے جاتے تھے۔

سی این این کی ویڈیو منظر عام پر آںے کے بعد یہ تو معلوم نہ ہوسکا کہ اس شخص کے ساتھ کیا کچھ ہوا، تاہم بتایا گیا کہ اسے آخری بار ریڈ کریسنٹ کی گاڑی میں سوار ہوتے دیکھا گیا تھا، جو جو اچانک وہاں سے غائب ہو گئی تھی۔

سی این این کے ایک ترجمان نے کہا، “صرف ہماری ٹیم کو معلوم تھا کہ ہم اس جیل کی عمارت کا دورہ کرنے والے ہیں جس دن ہم نے رپورٹ کو فلمایا۔

سی این این کے ترجمان کا کہنا تھا کہ شام کے باغی گارڈ نے قیدی کو رہا کروایا۔ ہم نے صرف قیدی سے سوال کیا تھا۔ سی این این کے ترجمان نے اعتراف کیا کہ قیدی نے اپنے نام کے بارے میں کلریسا وارڈ سے جھوٹ بولا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم قیدی کے ماضی کا جائزہ لے رہے ہیں اور ہمیں اتنا معلوم ہے کہ اس نے فرضی نام رکھا ہے۔

investigation

fake

CNN launches

Clarissa Ward's

jail rescue