”بھارت اب صرف ہندو اکثریت کی مرضی کے مطابق چلے گا“
بھارت میں ہائی کورٹ کے ایک جسٹس کو ہندو انتہا پسندوں کی مرضی کے ریمارکس دینے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ سوشل میڈیا پر اِلٰہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر کمار یادو کی بھرپور ٹرولنگ کی جارہی ہے۔
شیکھر کمار یادو نے انتہا پسند ہندو تنظیم وِشو ہندو پریشد کی ایک تقریب میں شرکت کی اور وہاں تقریر کے دوران کہا کہ بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت ہے اور بھارت میں وہی ہوگا جو اکثریت چاہے گی۔ یہ ریمارکس ملک میں بسنے والے تمام لوگوں کے لیے یکساں سول کوڈ کے حوالے سے تھا۔
انتہا پسند ہندو چاہتے ہیں کہ ملک بھر میں عائلی معاملات اور ترکے کی تقسیم وغیرہ کے حوالے سے یکساں قوانین نافذ کیے جائیں۔ مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں نے اس کی شدید مخالفت کی ہے۔
یکساں سول کوڈ نافذ کیے جانے کی صورت میں کوئی بھی شخص ایک سے زائد بیویاں نہیں رکھ سکے گا اور طلاق بھی نہیں دے سکے گا۔ شریعت کہتی ہے کہ شوہر کے مرنے پر بیوہ کو (اولاد کی موجودگی کی صورت میں) ترکے میں سے آٹھواں حصہ ملے گا جبکہ یکساں سول کوڈ کی صورت میں بیوہ کو ترکے کا نصف ملے گا۔
اقلیتوں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ یکساں سول کوڈ نافذ کیے جانے سے معاملات صرف خراب ہوں گے۔ شادی بیاہ، طلاق اور ترکے کی تقسیم کے معاملات میں ہر شخص کو اپنے مذہب کے مطابق چلنے کا اختیار دیا جانا چاہیے۔
جسٹس شیکھر کمار یادو پر سیاسی پلیٹ فارم سے منعقدہ تقریب میں شرکت کرنے پر بھی تنقید کی جارہی ہے۔ وکلا اور صحافیوں نے کہا ہے کہ کسی بھی آن ڈیوٹی جج کو سیاسی پلیٹ فارمز کی تقریبات میں شریک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اِس سے غیر جانب داری متاثر ہوتی ہے۔ شیکھر کمار یادو نے گائے کے تحفظ سے متعلق انتہا پسند ہندوؑں کی سوچ سے مطابقت رکھنے والے ریمارکس دے کر بھی تنازع کھڑا کیا تھا۔