معزول شامی صدر بشار الاسد نے روس میں سیاسی پناہ لے لی
روسی حکام نے شامی صدر بشار الاسد کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ وہ شام چھوڑنے سے پہلے اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے جبکہ معزول شامی صدر نے روس میں سیاسی پناہ لے لی۔ روسی میڈیا کے مطابق بشارالاسد اور ان کے اہل خانہ ماسکو میں ہیں۔
واضح رہے کہ شام میں اسد خاندان کے پچاس سالہ دور اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔ باغی گروپ تحریر الشام نے بشارالاسد کا تختہ پلٹ دیا۔ شامی فوج کی اکثریت نے عراق میں پناہ لے لی۔ فورسز نے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی باغیوں نے دمشق ایئرپورٹ اور سرکاری ٹی وی کا کنٹرول بھی سنبھال لیا۔
کریملن ذرائع کے مطابق بشار الاسد اور ان کے خاندان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد سیاسی پناہ دی ہے۔ روسی صدر پوٹن نے آخری بار شام کے صدر بشار الاسد سے جولائی دو ہزار چوبیس میں ملے تھے۔
دونوں رہنماؤں نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ روسی وزارت خارجہ کے مطابق بشارالاسد نے شام چھوڑنے سے پہلے اقتدار کی پُرامن منتقلی کی خواہش ظاہر کی تھی۔
ترجمان نے کہا ماسکو شامی اپوزیشن کے تمام دھڑوں کے ساتھ رابطے میں ہے یقینی بنایا جائے گا کہ شام میں شہری محفوظ رہیں۔ شام میں روسی فوجی اڈے ہائی الرٹ ہیں۔
بشار الاسد کا تختہ الٹنے کا کریڈٹ اسرائیل نے مانگ لیا
روسی وزارت خارجہ نے تمام فریقین سے پُرتشدد کارروائیوں سے گریز کی اپیل کی ہے۔
اس سے قبل روسی ذرائع کا کہنا ہے کہ شام کے صدر نے محل چھوڑنے سے قبل حکام کو اقتدار کی پرامن منتقلی کی بھی ہدایت کی تھی، بشار الاسد نے عہدہ صدارت اور ملک چھوڑنے کا فیصلہ پہلے ہی کرلیا تھا۔
دوسری جانب چین نے امید ظاہر کی ہے کہ شام میں حالات جلد معمول پر آجائیں گے۔ ادھر مصر نے تمام فریقین سے ملک کے استحکام کے لیے مل کر کام کرنے کی اپیل کی ہے۔
جرمنی نے صدر بشار الاسد کی طویل حکمرانی کے خاتمے کو شام کے عوام کے لیے خوشی کی خبرقرار دیا ہے۔
حال ہی میں منتخب ہونے والے امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکا کا شام کے تنازعہ سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے، امریکا کو اس معاملے میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔
ترکی میں قونصل خانے سے شامی پرچم اتار دیا گیا
علاوہ ازیں بشار الاسد کے صدارت چھوڑنے کے بعد اسرائیلی فوج شام کے شہر قنیطرہ میں داخل ہوگئی ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ باغیوں کو سابق صدر کی فوج کے اسلحہ پر قبضے سے روکیں گے، تاہم شامی باغی اسرائیل کے ساتھ جنگ کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔
Comments are closed on this story.