بھارت کو بڑا جھٹکا، بنگلا دیش نے ٹیلی کام معاہدہ منسوخ کردیا
سفارت کاری اور سیاست کے محاذ پر پنپتے ہوئے تناؤ کے تحت بنگلا دیش نے اب بھارت سے دور ہٹنا شروع کردیا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کے دور میں بنگلا دیش کی حیثیت بھارت کے بغل بچے کی سی تھی مگر اب ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں بنگلا دیش کی عبوری حکومت دن رات ایسے اقدامات کر رہی ہے جن کا بنیادی مقصد بنگلا دیش پر بھارت کی چھاپ کو کم کرتے کرتے مٹانا ہے۔
بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ نے حکم دیا ہے کہ بھارت سے ٹیلی کام کا وہ وسیع البنیاد معاہدہ منسوخ کردیا جائے جس کا تعلق انٹرنیٹ کی خدمات سے ہے۔
اس معاہدے کے تحت بھارت کو اپنی شمال مشرقی ریاستوں کے لیے انٹرنیٹ براڈ بینڈ سروس بہتر بنانے کی خاطر بنگلا دیش کو ٹرانزٹ پوائنٹ کے طور پر بروئے کار لانا تھا۔
بھارت کے میڈیا آؤٹ لیٹ لائیو ہندوستان نے یکم دسمبر کو اطلاع دی تھی کہ بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے ٹیلی کام کا یہ معاہدہ ختم کرنے کے لیے بی ٹی آر سی کو ہدایات دی ہیں۔
بنگلا دیش کی عبوری حکومت کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ سابق حکومت نے کیا تھا اور تمام حالات کو ذہن نشین نہیں رکھا گیا تھا۔ اب اندازہ ہو رہا ہے کہ اس معاہدے سے بنگلا دیش کو کچھ فائدہ پہنچنے والا نہیں۔
گزشتہ برس بنگلا دیش کی دو کمپنیوں سمِٹ کیمونی کیشنز اور فائبر ایٹ ہوم کی طرف سے بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کے لیے سنگاپور سے آنے والے کیبلز کے ذریعے انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے کی تجاویز سامنے آنے پر بنگلا دیش ٹیلی کمیونی کیشن ریگیولیٹری کمیشن (بی ٹی آر سی) نے ٹیلی کام کی وزارت سے رابطہ کیا تھا۔
پورے خطے میں انٹرنیٹ کی خدمات بہتر بنانے کے حوالے سے بھارت کے ٹیلی کام ادارے بھارتی انٹیل سے اکھوڑا بارڈر کے ذریعے اشتراکِ عمل کیا جانا تھا۔
بی ٹی آر سی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس معاہدے سے بنگلا دیش کے لیے کوئی معاشی فائدہ دکھائی نہیں دیا جبکہ بھارت کے لیے اس میں غیر معمولی سہولت تھی۔
بھارتی میڈیا نے واویلا مچانا شروع کردیا ہے کہ اس اہم فیصلے کی پشت پر معاشی وجوہ نہیں بلکہ سیاسی تناؤ اور دباؤ ہے۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ بنگلا دیش کی عبوری حکومت انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور اُن کی فرمائش پر ایسے فیصلے کر رہی ہے جن کا بنیادی مقصد بنگلا دیش کو بھارت سے دور کرنا ہے۔
Comments are closed on this story.