ایودھیا کی بابری مسجد کی شہادت کو 32 برس گزر گئے
ایودھیا (فیض آباد) میں سولھویں صدی عیسوی کی بابری مسجد کی شہادت کو آج 32 سال مکمل ہوگئے۔ بابری مسجد کو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک گیر تحریک چلاکر شہید کیا۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک بھر میں مسلم کش فسادات ہوئے جن میں کم و بیش دو ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ فسادات ایودھیا کے علاوہ ممبئی، کولکتہ، سلام پور، احمد آباد، دہلی، بھوپال اور دوسرے بہت سے شہروں میں ہوئے۔
بنارس کی گیان واپی مسجد کے کیس میں مسلمانوں کو دھچکا
بابری مسجد کی شہادت کو ابتدا قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے بعد انتہا پسند ہندوؤں نے اتر پردیش اور دیگر ریاستوں میں بیسیوں مساجد کے بارے میں یہ دعوٰی کیا کہ وہاں پہلے مندر تھے۔ اس حوالے سے عدالتوں میں درخواستیں بھی دائر کی گئیں۔
دہلی میں 700 برس پرانی مسجد شہید
جہاں بابری مسجد تھی وہاں آج رام جنم بھومی مندر ہے۔ اس مندر میں رام للا کی مورتی ہے یعنی رام کے لڑکپن کی مورتی سجائی گئی ہے۔ سالِ رواں کے اوائل میں مودی سرکار نے اس مندر کے افتتاح کو شاندار قومی ایونٹ میں تبدیل کرکے انتخابی فوائد بٹورے تھے۔
بابری مسجد کی شہادت کے ذریعے انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کا موراک خطرناک حد تک گرانے کی بھرپور کوشش کی مگر تاریخ شاہد ہے کہ اس عظیم سانحے کے بعد بھارت کے مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی اور وہ اسلام کی طرف زیادہ توجہ اور لگن کے ساتھ متوجہ ہوئے۔
اترپردیش : مندر کی زمین پر مسجد کی تعمیر کا دعویٰ، ایک اور مسجد شہید کیے جانے کا خدشہ
آج بھارتی مسلمانوں کی نئی نسل میں دینی رجحان غیر معمولی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت نے اُن میں اپنے ہونے کا شعور پیدا کیا اور انہوں نے خود کو منوانے کی طرف سفر شروع کیا۔
Comments are closed on this story.