افغانستان اور وسطِ ایشیا کیلئے پاکستانی برآمدات خطرے میں پڑگئیں، جُنید مکدا
پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (پی اے جے سی سی آئی) کے صدر جنید مکدا نے پاک افغانستان تجارت، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور وسطِ ایشیا کی ریاستوں کے لیے برآمدات میں نمایاں کمی کو انتہائی تشویش ناک قرار دیا ہے۔
پی اے جے سی سی آئی کے صدر کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے 2 فیصد انفرا اسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس اور حالیہ ریگیولیٹری اور معاشی رکاوٹوں کے باعث پاکستان کی معاشی صلاحیت اور علاقائی معاشی استحکام کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
پی اے جے سی سی اے کے قیام کا بنیادی مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاشی تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔ یہ گروپ دونوں ملکوں میں دفاتر کے ذریعے کام کرتا ہے، تجارت دوست ماحول اور پالیسیوں کی وکالت کرتا ہے اور دو طرفہ تجارت کو درپیش چیلنجز سے نپٹنے کی حکمتِ عملی تیار کرتا ہے۔
وزارتِ تجارت کی مستقل مدد کے ذریعے پی اے جے سی سی اے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے فعال رہا ہے تاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو فائدہ پہنچے۔
پاک افغان تجارت کسی وقت ڈھائی ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی اور پانچ ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع تھی۔ ماہرین تو کہتے تھے دونوں ملکوں کے درمیان سات ارب ڈالر تک تجارت ہوسکتی ہے مگر بعض متنازع ایس آر اوز، غیر فعال بینکنگ چینلز اور دو طرفہ تجارت میں یومیہ بنیاد پر درپیش مشکلات کے باعث یہ سب کچھ نہ ہوسکا۔
انفرا اسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس (آئی ڈی سی) اور دیگر رکاوٹیں افغانستان اور وسطِ ایشیا کی ریاستوں کے لیے پاکستانی برآمدات کی راہ میں دیواریں کھڑی کر رہی ہیں اور وسیع تر ٹرانزٹ ٹریڈ کو بھی الجھنوں کا سامنا ہے۔
جنید مکدا کا کہنا ہے کہ 2 فیصد سیس اور دیگر معاشی رکاوٹیں مل کر افغانستان اور وسطِ ایشیا کے لیے پاکستان کی برآمدات کی راہ مسدود کرسکتی ہیں اور افغانستان سے آنے والا مال بھی کسی اور طرف مُڑ سکتا ہے۔
جنید مکدا کا کہنا ہے کہ پی اے جے سی سی آئی ڈاکیومینٹیڈ معیشت کا حامی ہے۔ اس نوعیت کے اقدامات سے تجارت غیر رسمی اور متوازی راستوں کی طرف مُڑ رہی ہے۔ اس سے محض معیشت کو نقصان نہیں پہنچ رہا بلکہ علاقائی تجارتی لیڈر کی حیثیت سے پاکستان کی پوزیشن بھی خطرے میں ہے۔
کے پی کے حکومت نے آئی ڈی سی کے ذریعے درآمدات پر دُہرے ٹیکسوں کا بوجھ متعارف کرایا ہے۔ اس کے نتیجے میں کراچی کے ساتھ ساتھ پشاور میں بھی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ اس کے نتیجے میں کے پی کے میں قائم کاروباری اداروں کے لیے مارکیٹ میں مسابقت دشوار تر ہوگئی ہے۔
صوبوں کے درمیان سیس کی پالیسیوں کے فرق سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں۔ کے پی کے میں لیگل چیلنج پیدا ہوئے ہیں اور افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے معاملات میں بھی تنازعات سر اٹھائے ہوئے ہیں۔
بلوچستان نے برآمدات پر سیس ختم کردیا ہے جو خاصا خوش آئند قدم ہے۔ ناہموار ریگیولیٹری ماحول تجارت کو کے پی کے سے دور لے جارہا ہے۔ طورخم بارڈر پر اضافی لاگت کے باعث افغان تاجروں نے ایران اور دیگر متبادل روٹ اختیار کرنا شروع کردیا ہے۔
جواب میں پی اے جے سی سی آئی نے وزیرِاعظم ہاؤس، اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل، وزارتِ تجارت اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حکام، کے پی کے گورنر اور وزیرِاعلیٰ سے اشتراکِ عمل کیا ہے۔
جُنید مکدا کا کہنا ہے کہ حکومت کو برآمدات کی راہ میں حائل رکاوٹیں فوری طور پر ہٹادینی چاہئیں۔ اِسی صورت پاکستان علاقائی سطح پر تجارت کا قائد بننے کی پوزیشن میں آسکے گا۔ اس کے لیے صرف سیس ختم کرنا لازم نہیں بلکہ ملک بھر میں تاجر دوست ماحول اور پالیسیاں نافذ کرنا بھی لازم ہے۔
Comments are closed on this story.