عالمی ادارہ صحت نے ٹی بی کے پہلے جامع ٹیسٹ کی منظور دے دی
عالمی ادارہ صحت نے ٹی بی (تپِ دِق) کے پہلے ٹیسٹ کی منظوری دے دی ہے۔ پہلے عالمی ادارہ صحت کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہے۔ گزشتہ سال دنیا بھر میں تپِ دِق سے 12 لاکھ 50 ہزار افراد لقمہ اجل ہوگئے تھے۔
امریکی مولیکیولر ڈایاگنوسٹکز کمپنی سیفائیڈ کے تیار کردہ ٹیسٹ ایکسپرٹ ایم ٹی بی، آر آئی ایف الٹرا کے پہلے ٹیسٹ کی منظوری دی گئی ہے۔
یہ ٹیسٹ ٹی بی کی تشخیص اور اینٹی بایوٹک ہدف پذیری جانچنے کے لیے ہے جو عالمی ادارہ صحت کے پری کوالیفکیشن معیارات پر پورا اترتا ہے۔
نیا ٹیسٹ چند ہی گھنٹوں میں تشخیص کردیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ درست اور تیز رفتار تشخیص اس بیماری کی روک تھام کے لیے لازم ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے متعین کیے ہوئے معیارات کا بنیادی مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ بنیادی ہیلتھ پروڈکٹس عالمی معیارات کے مطابق، موثر اور محفوظ ہوں۔
عالمی ادارہ صحت نے اس ٹیسٹ کی پہلے سے سفارش کر رکھی تھی تاہم پری کوالیفکیشن کا مطلب یہ ہے کہ یونیسیف اور اقوامِ متحدہ کے دیگر ادارے، گاوی ویکسین الائنس اور دیگر گروپ محدود وسائل کے ساتھ متعلقہ پروڈکٹس کی تیاری، حصول اور تقسیم میں سہولت محسوس کریں۔
ٹی بی کے پہلے تشخیصی پری کوالیفکیشن ٹیسٹ عالمی ادارہ صحت کے تحت متاثرہ ممالک میں اس بیماری سے بہ طریقِ احسن نپٹنے کے لیے نمایاں کوشش کا مظہر ہے۔ یہ بات عالمی ادارہ صحت کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل یوکیکو ناکاتانی نے بتائی۔
ٹی بی بیکٹیریا سے پیدا ہوتا ہے۔ اِس کا علاج بھی ممکن ہے اور اِسے پھیلنے سے روکا بھی جاسکتا ہے۔ یہ مرض عام طور پر پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ بیماری بیمار یا متاثرہ افراد کی کھانسی، ٹھوک یا چھینک کے نتیجے میں بیکٹیریا کے ذریعے دوسروں کو لپیٹ میں لیتی ہے۔
اکتوبر میں عالمی ادارہ صحت نے بتایا کہ 2023 میں دنیا بھر میں ٹی بی کے 82 لاکھ نئے مریض سامنے آئے تھے۔
عالمی ادارہ صحت نے 1995 سے اب تک اس مرض کی بھرپور مانیٹرنگ کی ہے۔ تب سے اب تک یہ ٹی بی کے نئے مریضوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
12 لاکھ 50 ہزار ہلاکتوں کے ساتھ ٹی بی ایک بار پھر عالمگیر سطح پر اموات کا ایک بڑا سبب بن کر ابھری ہے۔ مسلسل تین سال تک کورونا نے موت کے اسباب میں ٹی بی کو پیچھے چھوڑ رکھا تھا۔
دنیا بھر میں ٹی بی کے مریضوں کی نصف تعداد بھارت، انڈونیشیا، چین، فلپائن اور پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ ان میں بھی بھارت ایک چوتھائی کے ساتھ نمایاں ترین ہے۔
Comments are closed on this story.