انتہا پسند ہندوؤں نے خواجہ غریب نواز کے مزار کو بھی نشانے پر لے لیا
بھارت میں نمایاں ترین مساجد اور مزارات کو مندر قرار دینے کے لیے انتہا پسند ہندوؤں کا پروپیگنڈا ایک زمانے سے جاری ہے۔ کبھی بنارس اور متھرا کی اہم مساجد کو مندر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی تاج محل کو بھی قدیم مندر قرار دینے سے گریز نہیں کیا جاتا۔
اب 1911 میں شایع ہونے والی ایک کتاب کی بنیاد پر دعوٰی کیا جارہا ہے کہ جہاں اس وقت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ کا مزار ہے وہاں کبھی شیو کا مندر تھا اور مندر کو گراکر اُس کے ملبے کی مدد سے مزار تعمیر کیا گیا۔
بھارت کی مغربی ریاست راجستھان کی ایک عدالت نے انتہا پسند ہندو گروپوں کی طرف سے دائر کی جانے والی پٹیشن پر اجمیر کی مرکزی درگاہ کے حوالے سے ایک نوٹس جاری کیا ہے۔
ہندو انتہا پسند گروپوں کا کہنا کہ اس وقت جہاں مزار واقع ہے وہاں شیو مندر ہوا کرتا تھا اس لیے وہاں ہندوؤں کو پوجا کی اجازت دی جائے۔ ہندو سینا کے صدر وشنو گپتا کی دائر کی ہوئی پٹیشن پر سول جج من موہن چنڈیل نے بدھ کو سماعت کی۔
اس مقدمے کو ”بھگوان شری سنکٹ موچک مہا دیو وِراجمان بنام درگاہ کمیٹی“ کا عنوان دیا گیا ہے۔ پٹیشن ستمبر میں دائر کی گئی تھی۔ بنیادی دعوٰی یہ ہے کہ مندر کو گرانے کے بعد اُس کا ملبہ مزار کی تعمیر میں استعمال کیا گیا۔
اس کیس میں آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔ عدالت نے مذہبی امور کی مرکزی وزارت، آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا اور درگاہ کمیٹی کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔ اگلی سمبر 20 دسمبر کو ہوگی۔
درخواست گزار کے وکیل رام سوروپ بشنوئی نے ریٹائرڈ جج ہروِلاس شاردا کی 1911 کی کتاب ”اجمیر: ہسٹاریکل اینڈ ڈِزکرپٹیو“ کا حوالہ دیا ہے۔ کتاب میں الزام لگایا گیا تھا کہ ہندوؤں کے مندر کے ملبے سے مزار تعمیر کیا گیا۔
مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ درگاہ کی حدود میں ایک شیو لنگم بھی ہوا کرتا تھا جس کی پوجا برہم کمیونٹی کرتی تھی۔ مزید یہ کہ درگاہ کے ڈھانچے میں ایک جین مندر کے آثار بھی شامل کردیے گئے۔ مقدمے کے متن کے مطابق مندر کے اجزا بلند دروازے کی تعمیر میں استعمال کیے گئے۔
بنارس کی گیان واپی مسجد کے کیس میں مسلمانوں کو دھچکا
اس مقدمے کے دائر کیے جانے سے اجمیر اور راجستھان کے چند دوسرے شہروں میں خاصی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ میڈیا میں اس معاملے کو اُچھالے جانے سے معاملات مزید بگڑے ہیں۔