کُرم: سیز فائر میں 10 روز کی توسیع پر اتفاق، مذاکرات کا عمل جاری
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ کرم میں فریقین کے درمیان جنگ بندی خوش آئند ہے، علاقے میں پائیدار امن کے لئے کوششیں تیز کی جائیں گی۔
وزیراعلیٰ گنڈاپور نے پی ٹی آئی احتجاج سے فارغ ہونے کے بعد کرم تنازعہ پراعلیٰ سطح اجلاس طلب کر لیا ۔ اجلاس میں چیف سیکرٹری، آئی جی پی، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ اور دیگر حکام نے شرکت کی۔
وزیر اعلیٰ کو کرم کی تازہ صورتحال پر بریفنگ میں بتایا گیا کہ متحارب فریقین کے درمیان 10 دنوں کے لئے سیز فائر ہوا ہے، جبکہ مذاکرات کا عمل جاری ہے، امن برقرار رکھنے کے لئے تمام اہم مقامات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دستے تعینات کئے جائیں گے۔
علاقے میں ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لئے تخمینہ لگایا جارہا ہے اورمحفوظ نقل و حمل کے لئے سکیورٹی پلان اور ایس او پیز جاری کئے جارہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے فریقین کے درمیان جنگ بندی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ علاقے میں پائیدار امن کے قیام اور تنازعات کے حل کے لئے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے گا، علاقے میں مالی نقصانات کی اسسمنٹ ترجیحی بنیادوں پر مکمل کی جائے تاکہ متاثرین کے نقصانات کا جلد ازالہ کیا جاسکے۔
علی امین گنڈاپور نے جاں بحق افراد کے لواحقین کو مالی امداد کی ادائیگیاں جلد یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں پائیدار امن کا قیام صوبائی حکومت کی اولین ترجیح ہے ، صوبائی حکومت اس مقصد کے لئے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے گی۔
دریں اثنا خیبر پختونخواہ کے ضلع کرم میں حریف برادریوں کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ بدھ کو بھی جاری رہا، مقامی سرکاری اہلکار کے مطابق ایک ہفتے سے جاری پرتشدد واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد 89 ہو گئی۔
غیرملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق حالیہ تشدد اس وقت شروع ہوا جب پولیس کی حفاظت میں دو قافلوں پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں کم از کم 43 افراد جاں بحق ہوگئے۔
صوبائی حکام نے اس ہفتے کے آخر میں سات روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا لیکن یہ برقرار نہیں رہا۔ مقامی حکومت کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اب بھی مختلف علاقوں میں فائرنگ کی اطلاعات ہیں۔
مقامی قبائلی رہنما ایک نئی جنگ بندی پر بات چیت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے آج یا کل ہونے کی توقع ہے۔
کرم: قبائلی کشیدگی میں شدت، مزید 31 ہلاکتیں، حکومتی ہیلی کاپٹر پر بھی فائرنگ
واضح رہے کہ پاراچنار شہر سے 60 کلومیٹر فاصلے پر واقع علاقہ بگن اور لوئر علیزئی کے لوگ اُس وقت مورچہ زن ہوئے جب 21 نومبر کو مسافر قافلے پر مسلح افراد نے حملہ کیا، اس حملے کے نتیجے میں 7 خواتین، 3 بچوں سمیت 43 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔
واقعہ کے بعد حالات معمول سے باہر ہوگئے اور فریقین ایک دوسرے خلاف مورچہ زن ہیں۔ رات گئے فریقین نے ایک دوسرے پر لشکر کشی بھی کی، جس کے نتیجے میں دکانوں اور گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔
ضلع کرم کے تین مقامات اپر کرم کے گاؤں کنج علیزئی اور مقبل ، لوئر کرم کے بالش خیل اور خار کلی سمیت لوئر علیزئی اور بگن کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ تاحال جاری ہے۔
بھاری اور خودکار اسلحہ کے استعمال کے باعث مختلف مقامات میں خوف و ہراس پایا جا رہا ہے، متعدد دیہاتوں سے نقل مکانی کا سلسلہ بھی تیزی سے جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق اب تک کئی خاندان ٹل پہنچ چکے ہیں، دوسری جانب بالش خیل ، خار کلی اور علیزئی سے بھی نقل مکانی ہو رہی ہے۔