سرچ مارکیٹ پر گوگل کی اجارہ داری سے امریکی حکومت بھی پریشان
امریکی حکومت نے عدلیہ پر زور دیا ہے کہ وہ گوگل سے کہے کہ اپنا گوگل کروم براؤزر فروخت کردے۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں غیر معمولی انفرادیت کی حامل کمپنی گوگل پر الزام ہے کہ وہ اپنے بیشتر معاملات میں اجارہ داری کی طرف بڑھ رہی ہے اور اُس نے سرچ مارکیٹ کو مکمل طور پر شکنجے میں کس لیا ہے۔
عدالت میں پیش کی جانے والی ایک دستاویز سے معلوم ہوا ہے کہ امریکی محکمہ انصاف نے گوگل کی اجارہ دارانہ سرگرمیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
عدلیہ سے کہا گیا ہے کہ وہ گوگل کو ایپل سمیت تمام اسمارٹ فون تیار کرنے والے اداروں سے ایسے معاہدے رکنے سے روکے جن کا مقصد ان کمپنیوں کی پروڈکٹس میں گوگل سرچ انجن کو بنیادی براؤزر بنانا ہو۔
گوگل براؤزر دنیا بھر میں مقبولیت سے ہم کنار ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ فروخت اور استعمال ہونے والا براؤزر ہے۔
امریکی محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ کروم براؤزر سرچ انجن میں داخل ہونے کا اہم ذریعہ ہے۔ یہ ممکنہ حریفوں کے لیے مواقع کمزور کردیتا ہے۔ اسٹیٹ انکاؤنٹر نامی ویب سائٹ کا کہنا کہنا ہے کہ اس وقت گوگل عالم آن لائن سرچ مارکیٹ کے 90 فیصد سے زائد پر متصرف ہے۔
یاد رہے کہ امریکی حکومت نے دو دہائی قبل مائیکروسوفٹ کی اجارہ داری توڑنے کی بھی ناکام کوشش کی تھی۔ تب ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے عہدِ صدارت میں گوگل کے خلاف اجارہ داری کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ جو بائیڈن کے دور میں بھی جاری رہا۔ حکومت چاہتی ہے کہ دیو ہیکل کمپنیوں کو لگام دے مگر ایسا ممکن نہیں ہو پارہا۔
امریکا میں فیڈرل کورٹ کے جج امیت مہتا نے گزشتہ اگست میں جاری کردہ ایک فیصلے میں کہا تھا کہ گوگل نے سرچ مارکیٹ پر قبضہ کر رکھا ہے جو غیر قانونی ہے۔ اس نے صرف 2021 میں 26 ارب 30 کروڑ ڈالر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ادا کیے تھے کہ اسمارٹ فونز اور براؤزنگ پروگرامز میں گوگل خودکار سوچ انجن ہو۔
امریکا کے علاوہ گوگل کو یورپی یونین کے رکن ممالک میں مسابقتی قوانین کی خلاف ورزیوں کے شبہے میں وسیع تر قانونی مہم جوئی کا سامنا ہے۔