جہلم، راولپنڈی اور اٹک میں رینجرز کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ
پی ٹی آئی کے 24 نومبر کے احتجاج کے پیش نظر انتظامیہ نے اسلام آباد میں ڈی چوک پر کنٹینرز کی دیوار کھڑی کردی گئی ہے جبکہ زیروپوائنٹ اور فیض آباد کے قریب کنٹینر پہنچا دیئے گئے ہیں۔ ادھرمحکمہ داخلہ پنجاب نے جہلم ، راولپنڈی اور اٹک میں رینجرز کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا
راولپنڈی میں بھی چھبیس نومبر تک دفعہ ایک سو چوالیس نافذ ہے۔ پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی کارکنوں کی رہائش گاہ پر چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آرے بازار اور صادق آباد پولیس نے ستائیس کارکنوں کو دھرلیا۔
پنجاب پولیس نے 24 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے متوقع جلسے کے حوالے سے جاتی امراء روڈ پر بڑی تعداد میں کنٹینرز پکڑ لیے ہیں۔ یہ کارروائیاں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں کہ احتجاج کے دوران امن و امان کی صورتحال برقرار رہے۔
رینجرز کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ
محکمہ داخلہ پنجاب نے جہلم ، راولپنڈی اور اٹک میں رینجرز کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پنجاب کے 3 اضلاع میں رینجرز طلب کرنے کیلئے محکمہ داخلہ پنجاب نے وفاقی وزارت داخلہ کو مراسلہ بھجوا دیا ہے۔
مراسلے کے مطابق محکمہ داخلہ پنجاب نے راولپنڈی اور اٹک میں رینجرز کے 2، 2 ونگز کی خدمات مانگی ہیں جبکہ جہلم میں رینجرز کی 1 کمپنی تعینات کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
راولپنڈی اور اٹک میں رینجرز کی تعیناتی جمعہ 22 نومبر سے تاحکم ثانی ہو گی جبکہ جہلم میں 22 سے 27 نومبر تک رینجرز تعینات کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ حکام کے مطابق راولپنڈی، اٹک اور جہلم میں رینجرز کی تعیناتی کا فیصلہ ضلعی انتظامیہ کی سفارش پر کیا گیا ہے۔
کنٹینرز کی پکڑ دھکڑ
پولیس نے جاتی امراء مل چوک پر کنٹینرز کی بڑی تعداد کو قبضے میں لیا ہے۔ ان کنٹینرز کے ذریعے 24 نومبر کو جاتی امراء روڈ کو بند کیے جانے کا امکان ہے، جس سے احتجاج کے دوران راستوں کی بندش کی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے میں مدد ملے گی۔
پنجاب پولیس نے 24 نومبر کے احتجاج کو روکنے کے لیے مختلف شہروں میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی شروع کر دیا ہے۔ اس کے تحت متعدد کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور راستوں کی بندش کے لیے مزید کنٹینرز بھی قبضے میں لیے جا رہے ہیں۔
23 نومبر سے انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل کرنے کا فیصلہ، دفعہ 144 نافذ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کے پیش نظر 23 نومبر سے انٹرنیٹ اور موبائل سروس جزوی معطل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا دوسری جانب راولپنڈی میں 26 نومبر تک دفعہ 144 نافذ کردی، جس کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔
اس حوالے سے وزرات داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل سروس اسلام آباد، خیبرپختونخوا اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں معطل کی جاسکتی ہے۔
ذرائع وزارت داخلہ کے مطابق 22 نومبر سے موبائل انٹرنیٹ سروس پر فائر وال ایکٹیو کردی جائے گی، فائر وال ایکٹیو ہونے سے انٹرنیٹ سروس سلو ہو جائے گی۔
ذرائع وزرات داخلہ نے مزید بتایا کہ سوشل میڈیا ایپز پر ویڈیوز اور آڈیو ڈاؤن لوڈنگ نہیں ہوسکیں گی، صورتحال کو دیکھتے ہوئے کسی بھی وقت مخصوص مقامات پر انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل کی جاسکتی ہے۔
وفاقی وزارت داخلہ نے چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کو خط لکھ دیا
دوسری جانب پی ٹی آئی کے 24 نومبر کو ممکنہ احتجاج پر وفاقی وزارت داخلہ نے چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کو خط لکھ دیا۔
پی ٹی آئی نے 24 نومبراحتجاج کا دائرہ کار دنیا بھر میں پھیلا دیا
وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹری کو لکھے گئے خط میں ہدایت کی گئی ہے کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ 24 نومبر کو پی ٹی آئی کے احتجاج میں سرکاری مشینری، سرکاری ملازمین یا سرکاری فنڈز استعمال نہ کیے جائیں۔
اس سے پہلے وزیراعلٰی خیبرپختونخوا پر احتجاج کے لیے سرکاری مشینری اور سرکاری ملازمین کو استعمال کرنےکا الزام ہے۔
راولپنڈی میں 26 نومبر تک دفعہ 144 نافذ
راولپنڈی میں 26 نومبر تک دفعہ 144 نافذ کردی، جس کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا جبکہ ہرقسم کے جلسے جلوس ریلیوں اور چار سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہو گی۔
ڈپٹی کمشنر راولپنڈی حسن وقار چیمہ کی زیرصدارت ضلعی انٹیلی جنس کمیٹی کا ہنگامی اجلاس ہوا، جس میں اڈیالہ جیل کے اطراف سمیت مختلف علاقوں میں بدامنی اور دہشت گردی کے خدشات کے شواہد پیش کیے گئے۔
ڈپٹی کمشنر نے راولپنڈی میں 26 نومبر تک دفعہ 144 نافذ کردی، جس کے تحت ہر قسم کے جلسے جلوس ریلیوں اور چار سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی عائد کردی گئی۔
ڈپٹی کمشنر کے مطابق دفعہ 144 کا نفاذ شدت پسند سرگرمیوں کے خدشے کے باعث کیا گیا جبکہ ضلعی انتظامیہ نے نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
واضح رہے کہ 13 نومبر کو پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی بہن علیمہ خان نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان نے 24 نومبر کو احتجاج کی فائنل کال دے دی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ مطالبات تسلیم کیے جانے تک احتجاج جاری رہے گا جبکہ قوم نے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے کہ وہ آزادی میں رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا تھا کہ احتجاج کے لیے تیاریاں مکمل ہے، علیمہ خان نے احتجاج کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ اس بار کوئی واپسی نہیں ہے، جب تک ہماری مطالبات پورے نہیں ہوتے واپسی نہیں ہوگی۔
اس سے قبل خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ احتجاج کی فائنل کال کے لیے تیاریوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے اور فائنل کال اتنی شدید ہوگی کہ شاید مریم نواز واپسی موخر کرکے وہیں رہنے میں عافیت سمجھیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ احتجاج کی فائنل کال جعلی حکومت کے جنازے کی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔
9 نومبر کو صوابی جلسے میں علی امین گنڈاپور نے کہا تھا کہ عمران خان اس ماہ احتجاج کی کال دیں گے تو ہمیں سروں پر کفن باندھ کر نکلنا ہوگا اور اس بار بانی پی ٹی آئی کو رہا کرا کر دم لیں گے۔
لاہور سے 107 پی ٹی آئی کارکن گرفتار، اسلام آباد میں رینجرز اور ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ
اس کے علاوہ احتجاج کی تیاریوں کے حوالے سے عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی پشاور میں متحرک ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں ہونے والے جنوبی اور پشاور ریجن اجلاسوں سے خطاب بھی کیا۔
عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کیلئے ہم سب ایک پیج پر ہیں، بیرسٹر سیف
ذرائع کا کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی کا کہنا تھا کہ اس احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے تمام توانائی استعمال کی جائے گی، رکن صوبائی اسمبلی پانچ ہزار جبکہ رکن قومی اسمبلی 10 ہزار کارکنان جمع کرے گا۔
Comments are closed on this story.