اسکردو سے واپسی پر لاپتا سیاحوں کو نکال لیا گیا، کالام میں برفانی تودہ گرنے سے سڑک بند
اسکردو سے گلتری سے آتے ہوئے لاپتا 14 سیاحوں کا سراغ مل گیا، سیاح شو وائی کے مقام پر پناہ لیے ہوئے تھے اور انہیں محفوظ مقام پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف سوات کے علاقے کالام میں برفانی تودہ گرنے سے مہوڈنڈ میں مرکزی سڑک بند ہوگئی اور درجنوں سیاح پھنس کر رہ گئے۔
واضح رہے کہ پندرہ مسافر 2 گاڑیوں میں 14 نومبر کوگلتری سے بذریعہ دیوسائی جارہے تھے۔ شدید برفباری کی وجہ سے دیوسائی میں پھنس گئے۔
مسافروں سے زمینی رابطہ منقطع ہوگیا تھاجس پر مسافروں کے اہل خانہ اور علاقے کے لوگوں نے پاک فوج سے مدد کی اپیل کی۔
پاک آرمی کی زمینی ٹیم شدید برف باری میں ریسکیو آپریشن جاری رکھتے ہوئے مسافروں تک پہنچ گئی۔ تمام مسافروں کو ریسکیو کرکے گلتری پہنچادیا۔ مسافروں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کھانے کا سامان بھی ختم ہوچکا تھا۔ پاک فوج کی ٹیم نے انہیں خوراک بھی فراہم کی۔ گلتری سے اسکردو جاتے ہوئے برف باری کے باعث یہ مسافر پھنس گئے تھے۔ اِن سے زمینی رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔ پاک فوج کی ٹیم نے دو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے مسافروں کو نکالا۔
ڈپٹی کمشنراسکردو عارف احمد نے بتایا ہے کہ گلتری سے آنے والی سرچ ٹیم نے لاپتا افراد کو تلاش کرلیا گیا ہے، تمام افراد خیریت سے ہیں۔
کالام میں برفانی تودہ گرنے سے سڑک بند
دوسری جانب کالام کے علاقے مہو ڈنڈ سڑک پر چشم شفا کے مقام پر برفانی تودہ گرنے سے سڑک بند ہوگئی۔ درجنوں سیاح اور مقامی افراد پھنس کر رہ گئے ہیں۔
مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ سوات کی وادی کالام کے سیاحتی مقام مہو ڈنڈ سڑک پر چشم شفا کے نزدیک برفانی تودہ گرا ہے جس کے باعث مرکزی سڑک ہر طرح کی ٹریفک کے لیے بند ہوگئی ہے۔
دور افتادہ علاقوں سے آئے ہوئے سیاحوں نے انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ اُن کی فوری امداد کی جائے اور سڑک کھلوانے کے انتظامات کیے جائیں تاکہ وہ اپنے گھروں کو جاسکیں۔
سوات کے علاقے بریکوٹ مانیار میں سیاحوں کی گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی۔ گاڑی بے قابو ہوکر بجلی کے کھمبے سے جا ٹکرائی۔ لاہور سے آئے ہوئے تین سیاح زخمی ہوگئے۔ تینوں کو اسپتال منتقل کردیا گیا۔ ایک سیاح نے بتایا کہ ڈرائیور سوگیا تھا۔
موسمِ سرما میں جب موسم غیر معمولی شدت اختیار کرتا ہے تب ان علاقوں میں برفانی تودے گرنے کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور ہر سال کئی مقامات پر سیاحوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
Comments are closed on this story.