سارہ شریف قتل میں والد نے سارا الزام اپنے سر لے لیا، سوتیلی ماں کو بچانے کی کوشش
پاکستانی نژاد برطانوی شہری 42 سالہ ٹیکسی ڈرائیور عرفان شریف نے عدالت میں اعتراف کیا کہ اس نے اپنی 10 سالہ بیٹی سارہ کو قتل نہیں کیا، ’’میرا اسے قتل کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔‘‘
واضح رہے اس سے قبل برطانیہ میں اولڈ بیلی کی عدالت مقتولہ سارہ شریف کے والد عرفان شریف نے اعتراف کیا تھا کہ جب سارہ بری طرح زخمی تھی تو سارہ کی سوتیلی ماہ بینیش نے ایمبولینس بلانے سے منع کر دیا تھا۔
تاہم بدھ کو لگنے والی عدالت میں عرفان شریف نے ایمبولینس نہ بلانے کی ذمہ داری بھی خود لے لی، اس سے پہلے بینش پر الزام تھا۔
عرفان نے عدالت کو بتایا کہ وہ اس شام گھر پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ سارہ کمرے میں ان کی اہلیہ بینش کے ساتھ بیمار پڑی ہے۔ عرفان شریف نے کیرولین (بینش بتول کی وکیل) کی بات سے اتفاق کیا جنھوں نے کہا تھا کہ عرفان کو یقین نہیں تھا کہ سارہ واقعی بیمار ہیں۔
کیرولین نے پوچھا کہ آپ نے بینش سے کہا کہ وہ ڈرامہ کر رہی ہے، آپ نے دھاتی پول اٹھایا اور سارہ کے پیٹ پر دو بار مارا جب کہ وہ بری حالت میں لیٹی ہوئی تھی۔ عرفان شریف نے اتفاق کیا کہ یہ بات درست تھی۔
کیرولین نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بینش نے کہا کہ ہمیں ایمبولنس کی ضرروت ہے، لیکن آپ نے بینس کو ایمبولنس بلوانے سے منع کر دیا، ایسا ہی تھا؟ جس پر عرفان شریف نے جواب دیا کہ ہاں ایسا ہی تھا۔
عالمی میڈیا کے مطابق عرفان شریف نے 10 سالہ بچی کو مار مار کر قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ اولڈ بیلی میں ثبوت دیتے ہوئے عرفان شریف نے کہا کہ ”وہ میری وجہ سے مری، میں اسے مارنا نہیں چاہتا تھا۔“
عرفان نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اس نے موت سے تقریباً ایک ماہ قبل سارہ کو بار بار موبائل فون سے سر پر مارا تھا، اور کبھی کبھار اپنی بیٹی کو کھمبے یا کرکٹ کے بلے سے مارنے سے پہلے اسے ٹیپ سے باندھ دیا تھا۔
عدالت میں عرفان شریف سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے سارہ کے ٹخنوں اور کلائیوں کو ٹیپ سے باندھنے کے بعد ’اُٹھک بیٹھک‘ کرنے پر مجبور کیا۔ جس پر عرفان نے کہا کہ ”نہیں ایسا نہیں ہے، میں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔“
سارہ شریف کے بہن بھائیوں کو واپس لے جانے میں برطانیہ ناکام، بچے دادا کے سپرد
عرفان شریف نے بعد میں مزید کہا کہ ”میں نے اسے ڈنڈے سے مارا، لیکن کوئی اٹھک بیٹھک نہیں کرائی“۔
واضح رہے کہ سارہ گزشتہ اگست میں ووکنگ میں واقع اپنے گھر پر مردہ پائی گئی تھی، جس پر انسانی کاٹنے کے نشانات اور لوہے کے جلنے سمیت زخموں کے نشانات تھے۔ اس کی لاش اس وقت ملی جب اس کا خاندان برطانیہ سے پاکستان بھاگ گیا تھا۔
اس کے والد 42 سالہ عرفان شریف، 30 سالہ سوتیلی ماں بینش بتول اور 29 سالہ چچا فیصل ملک سبھی نے اسکول کی طالبہ کو قتل کرنے اور 16 دسمبر 2022 سے 9 اگست 2023 کے درمیان ایک بچے کی موت کا سبب بننے یا اس کی اجازت دینے سے انکار کیا تھا۔
واضح رہے کہ 13 ستمبر کو پاکستان میں روپوش عرفان شریف، سوتیلی والدہ بینش بتول اور چچا فیصل کو برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق تینوں کو سیالکوٹ ائیرپورٹ سے روانہ کیا گیا تھا۔
ایک ماہ سے جہلم میں روپوش سارا شریف کے والد عرفان شریف، چچا فیصل اور سوتیلی والدہ بینش شریف کو سیالکوٹ ائر پورٹ سے ایمریٹس ائیر لائن کی پرواز EK-9 کے زریعے دبئی کے راستے برطانیہ کے لیے روانہ ہوئے۔
Comments are closed on this story.