تین صوبے مرکز پر یقین نہیں رکھتے، پاکستان ایک صوبے کی اکثریت پر ٹوٹا تھا، شبر زیدی
سابق چئیرمین ایف بی آر شبر زیدی کا کہنا ہے کہ تین صوبے مرکز پر یقین نہیں رکھتے، اگر این ایف سی ایوارڈ نہ دیا گیا تو شاید مستقبل میں تمام مالیاتی معاملات ایک صوبے کے ہاتھ میں ہوں، پاکستان بھی اسی وجہ سے ٹوٹا تھا۔
آج نیوز کے پروگرام ”نیوز انسائٹ وِد عامر ضیاء“ میں گفتگو کرتے ہوئے شبر زیدی نے کہا کہ ہمیں حقیقت پسند ہونے کی ضرورت ہے۔ 13000 ارب روپے کا ہدف ایک بڑا ہدف ہے اور ہم اس کا ایک چوتھائی حصہ جمع کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اس سہ ماہی میں ایف بی آر کی کارکردگی خراب نہیں ہے، میں بہت سی چیزوں سے متفق نہیں ہوں، لیکن ٹیکس وصولی کی صورت حال خراب نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 35000 ارب کا ٹارگٹ ہے اور آپ 100 یا 150ارب چھوڑ دیں کوئی بڑی بات نہیں۔ ہدف کا لفظ ہی غلط ہے اور اتنی رقم جمع کرنے سے پاکستان میں بہتری نہیں آئے گی۔ پاکستان کو بہتری کے لیے 26 ہزار ارب روپے ٹیکس جمع کرنا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سطح کی اقتصادی سرگرمی ابھی جاری ہے اور اسے جمع کیا جا سکتا ہے۔ بیٹری، سٹیل، کوئلہ ایکسائز ڈیوٹی کے بغیر فروخت کیا جا رہا ہے۔ سیلز ٹیکس، آڑھتی، خوردہ فروشوں کو دیا گیا ٹیکس اور جائیداد کی آدھی قیمت کی چوری روکنے سے دباؤ صارفین پر کم ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ تمام بازار اپنے ٹیکس کا 15 فیصد بھی دیں تو معاملات حل ہو جائیں گے۔ پراپرٹی اور سونا ایک پارکنگ گراؤنڈ ہے اس کے پاس اتنا پیسہ ہے۔
شبر زیدی نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے پاکستان میں حکومت نہیں ہے۔ کیا پارلیمنٹ نے یہ ٹیکس سسٹم دیا ہے؟ یہ ملک آئی ایم ایف کی شرائط پر چل رہا ہے۔ پارلیمنٹ ٹیکس نہیں جانتی۔ پارلیمنٹ صرف شام 5 بجے آئینی ترمیم کر سکتی ہے ٹیکس کی بات نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جے یو آئی کے مطابق ٹیکس انگریزی کا نظام ہے، ہم زکوٰۃ پر یقین رکھتے ہیں۔ ٹیکس ہمارے جینز/ڈی این اے میں نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے پہلے ہی بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ زرعی ٹیکس پہلے ہی نافذ ہے۔ پراپرٹی ٹیکس کا قانون موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے ممبئی شہر کا پراپرٹی ٹیکس پورے پاکستان کے ٹیکسوں سے زیادہ ہے۔
شبر زیدی نے کہا کہ مانیں یا نہ مانیں، ہم اس ریاست کو نہیں چلا سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا کسی معاشی ماہر کو پراپرٹی سروے کے لیے بلایا؟ سروے کیا جائے تو آدھی جائیداد ایم این اے، ایم پی اے اور بیوروکریٹ کی ہوگی اور اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
شبر زیدی نے کہا کہ میرا ذاتی خیال ہے این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کی جانی چاہئے، سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تمام فنانس لاگت، سود کی لاگت وفاق برداشت کرتا ہے۔ اس کے بعد مرکز دیوالیہ ہو جاتا ہے۔ قرضوں پر سود صوبوں میں استعمال ہوتا ہے، اسے ایڈجسٹ کیا جانا چاہئے۔ یہ ایسے ہی ناممکن ہے جیسے کالا باغ ڈیم بنانا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے آپ کو نہیں مانتے، تین صوبے مرکز پر یقین نہیں رکھتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے دو صوبوں کے مقابلے بڑے صوبے کی اسمبلی میں اکثریت ہے اور فنانس بل سینیٹ میں نہیں جاتا، اگر این ایف سی ایوارڈ نہ دیا گیا تو شاید مستقبل میں تمام مالیاتی معاملات ایک صوبے کے ہاتھ میں ہوں۔ یہ بنیادی مسئلہ ہے۔ اگر آپ اسے حل نہیں کرتے تو یہ ریاست کام نہیں کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بھی اسی وجہ سے ٹوٹا کیونکہ ایک صوبے میں دوسرے صوبوں سے زیادہ اکثریت تھی۔ ہمیں کم از کم سچ سوچنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ این ایف سی ایوارڈ میں ترمیم چاہتے ہیں تو اس میں ایک اور ترمیم بھی شامل ہوکہ منی بل، ٹیکسیشن بل، سینیٹ میں بھی جائیں گے۔ سنجیدہ بحث کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ماہر معاشیات، وزیر خزانہ کی تنخواہ آئی ایم ایف سے نہیں آنی چاہیے اور نہ ہی ان اداروں سے جو ادارے چلاتے ہیں۔