وہ جانور جو زلزلے کا خطرہ وقت سے پہلے بھانپ لیتے ہیں
کئی جانوروں کی ایسی خصوصیات ہیں جو انہیں زلزلے کے خطرے کا وقت سے پہلے محسوس کرنے کی صلاحیت دیتی ہیں۔ یہ جانور عموماً زمین میں ہونے والی معمولی تبدیلیوں، پیداواری لہروں، یا دیگر ماحولیاتی اشاروں کا پتہ لگا لیتے ہیں۔
یہاں کچھ جانوروں کی مثالیں دی جا رہی ہیں جو زلزلے سے پہلے کی علامات کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں:
کتا: کچھ تحقیقاتی مطالعوں میں یہ پایا گیا ہے کہ کتے زلزلے سے پہلے کی سرگرمیوں کا پتہ لگا لیتے ہیں۔ وہ زمین میں ہونے والی ہلکی ہلکی لرزشوں یا کیمیائی تبدیلیوں کا جواب دے سکتے ہیں۔
بلیاں: بلیوں میں بھی زلزلوں کے بارے میں حسی صلاحیتیں موجود ہیں۔ وہ عموماً زلزلے سے پہلے بے چینی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
چوہے اور دیگر چوہوں کی نسلیں: بعض چوہے زلزلے سے پہلے زمین میں ہونے والی تبدیلیوں کا پتہ لگا لیتے ہیں اور اس دوران غیر معمولی طور پر تیز رفتار حرکت کرتے ہیں۔
پرندے: آسمان میں اڑنے والے پرندے بھی قدرتی آفات کو محسوس کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ پرندے ہوا میں موجود دباؤ اور دیگر ماحولیاتی اشاروں کی بنیاد پر زلزلے یا دیگر قدرتی آفات کا پتہ لگا لیتے ہیں۔ جب زلزلہ آنے والا ہوتا ہے تو پرندے عموماً اپنے گھونسلوں سے دور چلے جاتے ہیں یا غیر معمولی طور پر بے چینی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کی یہ حس انہیں خطرے سے پہلے آگاہ کرنے میں مدد دیتی ہے، جو ان کے بقاء کے لیے اہم ہے۔
مچھلیاں: کچھ مچھلیاں، خاص طور پر سمندری مخلوقات، زلزلے سے پہلے کی کیمیائی تبدیلیوں کا پتہ لگا کر اپنے طرز عمل میں تبدیلی کر سکتی ہیں۔
ہاتھی: ہاتھی ایک بھاری بھرکم جانور ہے جو عام طور پر انسان دوست ہوتا ہے، لیکن اگر یہ مشتعل ہو جائے تو یہ تباہی مچا سکتا ہے۔ قدرت نے ہاتھی میں آفات کی پیش گوئی کی خاصیت رکھی ہے۔ ان کے پاس ہلکی سی آواز کو سننے کی حیرت انگیز صلاحیت موجود ہے، جس کی بدولت وہ زمین میں ہونے والی معمولی تبدیلیوں یا ہلکی ہلکی لرزشوں کا پتہ لگا لیتے ہیں۔ یہ آفات جیسے زلزلوں کے قریب آنے سے پہلے ہی اپنے ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کا احساس کر لیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ خطرے سے دور جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ جانور زلزلے سے قبل زمین میں ہونے والی ہلکی ہلکی حرکات یا دیگر ماحولیاتی اشاروں کا جواب دیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ زلزلے کے خطرے کا پہلے سے اندازہ لگا لیتے ہیں۔ تاہم، یہ صلاحیت ہمیشہ درست نہیں ہوتی، اور زلزلوں کی پیش گوئی کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
Comments are closed on this story.