Aaj News

جمعہ, نومبر 01, 2024  
28 Rabi Al-Akhar 1446  

انسداد دہشت گردی ترمیمی بل پیش، مطلوب شخص کو مسلح افواج بھی حراست میں رکھ سکیں گی

3 ماہ کے بعد بھی قید رکھنا ممکن، وفاقی وزیر قانون نے بل قومی اسمبلی میں پیش کیا
اپ ڈیٹ 01 نومبر 2024 02:36pm
فوٹو۔۔۔فائل
فوٹو۔۔۔فائل

انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں مزید ترمیم کا بل ملک کے ایوان زیریں (قومی اسمبلی) میں پیش کردیا گیا۔

اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت جاری قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون نے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل پیش کیا، انسداد دہشت گردی ترمیمی بل غور کے لیے کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔

مجوزہ ترمیم کے تحت مسلح افواج اور سول مسلح افواج کو جرائم میں ملوث شخص کو تین ماہ تک حراست میں رکھنے کا اختیار ہوگا جبکہ ملکی سلامتی، دفاع اور امن و عامہ سے متعلق جرائم پر سیکیورٹی ادارے کسی بھی شخص کو تین ماہ تک حراست میں رکھ سکیں گے۔

مجوزہ ترمیم کے مطابق تاوان، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا سے متعلق جرم پر تین ماہ زیر حراست رکھا جا سکے گا جبکہ جرائم میں ملوث شخص کی تین ماہ سے زائد حراست یا نظربندی میں شفاف ٹرائل کا حق دیا جائے گا، تین ماہ سے زائد نظربندی آرٹیکل 10 اے کے تحت ہوگی۔

جہاں مسلح افواج یا سول مسلح افواج کسی شخص کو زیر حراست رکھنے کا حکم دیں وہاں الزامات پر تحقیقات جے آئی ٹی کرے گی، مذکورہ جرائم میں ملوث شخص کی تحقیقات جے آئی ٹی کرے گی۔

جے آئی ٹی ایس پی پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیز، سول آرمڈ فورسز اور مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مشتمل ہوگی۔انسداد دہشتگری ایکٹ میں ترمیم وزیر داخلہ محسن نقوی کی جانب سے لائی گئی ہے۔

اجلاس کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ہونے سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ملک میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں نام ڈالنے کے لیے ایک باقاعدہ طریقہ کار موجود ہے جب کہ پرووشنل نیشنل آئیڈینٹیفکیشن لسٹ (پی این آئی ایل) میں نام شامل کرنے کے لیے رولز بنائے جاچکے ہیں، حکومت قانون سازی کیلیے مکمل ذمہ داری سےکام کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ای سی ایل کا ایک باقاعدہ طریقہ کار موجود ہے، ای سی ایل قانون کے حوالے سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے موجود ہیں۔

وزیر قانون نے کہا کہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام نکالنے کے لیے اس پر نظرثانی کی جاتی ہے، جائزہ لے کر بعض نام نکال دیے گئے، پورے دعوے سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ نظرثانی کا معاملہ آئین اور قانون کے مطابق دیکھتے ہیں۔

پاکستان

National Assembly