ٹرمپ، کملا کی توثیق سے معذرت پر واشنگٹن پوسٹ کو لینے کے دینے پڑ گئے
امریکا میں اخبارات کی جانب سے صدارتی امیدواروں کی حمایت ایک روایتی عمل رہا ہے، لیکن واشنگٹن پوسٹ نے 36 سال بعد پہلی مرتبہ کسی بھی امیدوار کی حمایت سے معذرت کرلی جس کے بعد سے اخبار کو غیرمعمولی صورتحال کا سامنا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے اخبار نے واضح کیا تھا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ یا کملا ہیرس میں سے کسی ایک کی بھی حمایت نہیں کرے گا، اور اس اصول پر ہمیشہ قائم رہے گا۔ واشنگٹن پوسٹ نے پہلی بار 1952 میں صدارتی امیدوار کی توثیق کی تھی، پھر یہ سلسلہ 1976 میں دوبارہ شروع ہوا۔
اس معاملے پر خبر آئی ہے کہ واشنگٹن پوسٹ کو اپنے فیصلے کی بھاری قیمت اٹھانی پڑ رہی ہے۔ ڈھائی لاکھ سبسکرائبرز نے واشنگٹن پوسٹ کی سبسکریپشن منسوخ کردی ہے۔
خیال رہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے کُل 25 لاکھ سبسکرائبرز ہیں اور ڈھائی لاکھ سبسکرائبرز مجموعی طور پر 10فیصد بنتا ہے۔
اعلان کے بعد سبسکرائبرز کا نقصان جاری رہا، صرف ایک دن پہلے 200,000 منسوخی کی اطلاع دی گئی۔ یہ اعداد و شمار سبسکرائبرز کی جانب سے بھیجے گئے کینسلیشن ای میلز سے آتے ہیں، کیونکہ سبسکرائبر مینجمنٹ سسٹم اب عملے کے لیے قابل رسائی نہیں ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے ان نمبروں پر عوامی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
ممتاز صحافی باب ووڈورڈ نے اس فیصلے سے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اخبار کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی معاملات، خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے رپورٹنگ کرے۔
یہ اقدام کملا ہیرس کے لیے ایک بری خبر ہے، کیونکہ واشنگٹن پوسٹ نے ماضی میں مسلسل ڈیموکریٹک امیدواروں کی حمایت کی ہے۔ اخبار نے دو رپورٹروں کا ایک آرٹیکل بھی شائع کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ادارتی صفحے کے عملے نے کملا ہیرس کی حمایت کا مسودہ تیار کیا تھا، مگر اخبار کے مالک جیف بزوس نے اسے شائع کرنے سے روک دیا۔
واشنگٹن پوسٹ کا صدارتی امیدوار کی توثیق نہ کرنے کا انتخاب اخباری صنعت میں ایک وسیع تر رجحان کی عکاسی کرتا ہے، جو کم ہوتی ہوئی آمدنی اور قارئین کی تعداد کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہے۔
مثال کے طور پر، USA Today، جو Gannett کی ملکیت ہے اور پرنٹ سرکولیشن میں پانچویں اور ڈیجیٹل سبسکرائبرز میں چوتھے نمبر پر ہے، نے اعلان کیا کہ وہ 200 سے زیادہ مقامی کاغذات کے ساتھ آئندہ انتخابات میں کسی امیدوار کی حمایت نہیں کرے گا۔