تیل سے مالا مال سعودی عرب کو بھی شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟
سعودی عرب دنیا میں تیل اور گیس کی پیداوار میں اپنا نمایاں مقام برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تبدیلی کے لیے تیار ہے۔ مملکت نے ہائیڈروجن، کاربن کیپچر، اور شمسی و ہوائی توانائی جیسے جدید منصوبوں کا آغاز کیا ہے۔ یہ سب کچھ ملک کی طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت ہے تاکہ ایک کاربن سے پاک معیشت کی تشکیل کی جا سکے جیسا کہ ”مجلس صنعتی توانائی“ کی نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سعودی معیشت اب بھی بڑی حد تک تیل اور گیس پر انحصار کرتی ہے جو کہ ملک کی معیشت کا 55 فیصد ہیں۔ بجلی کی پیداوار میں بھی یہ دونوں ذرائع اہم کردار ادا کرتے ہیں جہاں تیل کی شراکت 54 فیصد اور گیس کی 46 فیصد ہے۔
سعودی عرب کی قومی حکمت عملی ”ویژن 2030“ کے تحت ملک نے اپنے اقتصادی ڈھانچے کی تنوع اور فوسل فیولز پر انحصار کم کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ ملک میں 267.2 ارب بیرل تیل کے ذخائر ہیں اور یومیہ 11.389 ملین بیرل کی پیداوار کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ سعودی عرب صاف توانائی کی ٹیکنالوجیز میں بڑے سرمایہ کاری کے منصوبے بھی نافذ کر رہا ہے۔
مملکت میں قابل تجدید توانائی کے منصوبے مسلسل بڑھ رہے ہیں خاص طور پر شمسی اور ہوائی توانائی کے شعبوں میں۔ حالیہ منصوبے ”نیشنل رینیوایبل انرجی پروگرام“ کے تحت شمسی اور ہوائی توانائی پر مرکوز ہیں جن کا ہدف 4.5 گیگاواٹ کی مجموعی پیداوار ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سعودی عرب 2030 تک 120 گیگاواٹ کی پیداوار کا ہدف مقرر کر چکا ہے جس میں 50 فیصد قابل تجدید ذرائع سے حاصل کی جائے گی۔ موجودہ وقت میں مملکت میں 3.67 گیگاواٹ کی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت موجود ہے۔
سعودی عرب کا ہدف ہے کہ وہ 2035 تک سالانہ 4 ملین ٹن ہائیڈروجن کی پیداوار حاصل کرے جس کے لیے 16.1 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس میں ”نیوم“ میں ہائیڈروجن کے گرین منصوبے شامل ہیں جو 2026 تک روزانہ 650 ٹن ہائیڈروجن کی پیداوار کرے گا۔
اسی طرح کاربن کیپچر کے شعبے میں بھی اہم اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ”آرامکو“ نے 2035 تک سالانہ 14 ملین ٹن کاربن کیپچر کا ہدف رکھا ہے۔ ”جبیل انڈسٹریل سٹی“ میں قائم ہونے والا کاربن کیپچر سینٹر جو 2027 تک کام شروع کرے گا ان کوششوں کا ایک اہم حصہ ہے۔ سعودی عرب نے عزم کیا ہے کہ وہ نئے فوسل فیول پاور پلانٹس کی تعمیر نہیں کرے گا جب تک کہ وہ ”کاربن کیپچر“ ٹیکنالوجی سے لیس نہ ہوں۔
Comments are closed on this story.