سکھ رہنماؤں کا قتل اور سازش، بھارت کا امریکہ کے کہنے پر ایکشن اور کینیڈا کو ٹھینگا کیوں؟
کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں گزشتہ برس خالصتان نواز سکھ لیڈر ہردیپ سنگھ نجر کو قتل کردیا گیا اور گزشتہ برس ہی امریکہ میں امریکی و کینیڈین شہریت کے حامل سکھ لیڈر گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش رچی گئی تھی۔ اس حوالے سے امریکا اور کینیڈا نے مل کر تفتیش کی اور پنوں کے قتل کی سازش کی پشت پر دو بھارتی باشندوں کی موجودگی کا علم ہوا۔ اس حوالے سے بھارت کا رویہ اب دُہرا دکھائی دے رہا ہے۔
بھارتی قیادت ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی تفتیش میں کینیڈا سے تعاون سے گریز کر رہی ہے جبکہ گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش کے حوالے سے تفتیش میں امریکہ سے تعاون کر رہی ہے۔
بھارتی قیادت کے رویے میں اس فرق کا سبب کیا ہے؟ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں کینیڈا سے تعاون نہ کرنے پر دو طرفہ تعلقات متاثر ہوئے ہیں اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے سفارت کو نکالا بھی ہے۔ صرف ایک قتل کیس نے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔
گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش میں ملوث نکھل گپتا کو چیک جمہوریہ میں گرفتار کرکے امریکہ لایا جاچکا ہے جبکہ وکاش یادو کو دہلی میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ امریکی محکمہ انصاف نے دونوں پر فردِ جرم عائد کی ہے۔
کینیڈا میں تفتیش کاروں نے کہا ہے کہ ہردیپ سنگھ نکر کے قتل میں بھارتی سفارت کار بھی کسی نہ کسی سطح پر ملوث پائے گئے ہیں اور ان سے پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے۔ اس پر بھارت کا ردِعمل بہت شدید رہا ہے اور اس نے اپنے ہائی کمشنر سنجے کمار ورما کو واپس بلالیا۔
بھارت کا کہنا ہے کہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے حوالے سے کینیڈین حکام کی تفتیش کمزور رہی ہے اور وہ امریکا کی فراہم کی ہوئی معلومات پر انحصار کرتے رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے 17 اکتوبر کو پریس بریفنگ میں کہا کہ بھارت گرپتونت سنگھ پنوں کے معاملے میں تعاون کر رہا ہے اور امریکا اس تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
امریکا نے وکاش یادو کے بارے میں خاصی محنت کی ہے۔ وکاش کا تعلق پران پورہ، ہریانہ سے ہے اور وہ بھارت کے مرکزی خفیہ ادارے ’را‘ سے وابستہ رہا ہے۔ اس کا کوڈ نیم امانت تھا اور اس نے نکھل گپتا کے ساتھ مل کر قتل کی پلاننگ کی تھی۔
امریکی تفتیش کاروں نے بتایا ہے کہ وکاش یادو کو 18 جون کو ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی ویڈیو مل گئی تھی اور اس نے چند ہی گھنٹوں بعد یہ ویڈیو نکھل گپتا کو بھیج دی تھی۔
امریکی حکام نے دونوں سکھ لیڈرز کے معاملات میں کینیڈا سے اشتراکِ عمل کیا مگر یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کہ بھارتی قیادت امریکہ سے تعاون کر رہی ہے مگر کینیڈا کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہی ہے۔
کینیڈا نے امریکہ کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں یہاں تک کہا کہ کینیڈین سرزمین پر تعینات بھارتی سفارت کاروں نے خالصتان نواز سکھ لیڈرز کے قتل کے حوالے سے پلاننگ میں حصہ لیا۔
کینیڈا میں سی آئی اے کی طرز پر کوئی خفیہ ادارہ نہیں اس لیے وہ امریکہ کے علاوہ فائیو آئیز نامی جاسوس نیٹ ورک کی فراہم کردہ معلومات پر انحصار کرتا ہے۔
Comments are closed on this story.