بی جے پی کی انتہا پسند حکومت کا ریستورانوں کیلئے نیا متنازع قانون، کاروبار بند پڑنے لگے
بھارت کی ریاست اتر پردیش کے بعد اب ہماچل پردیش میں بھی وہ متنازع قانون نافذ ہوگیا ہے جس کے تحت ہر ہوٹل اور ریسٹورنٹ کے مالکان کے لیے لازم کردیا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام ملازمین کے نام نمایاں طور پر آویزاں کریں۔
اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس قانون کو انتہائی امتیازی نوعیت کا قرار دے کر اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے یعنی معاشی بائیکاٹ کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔
اس قانون کی منطق بیان کرتے ہوئے ریاستی حکومتوں نے کہا ہے کہ اس کے نفاذ کا مقصد حفظانِ صحت کے اصولوں سے ہم آہنگی یقینی بنانا ہے۔ اتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس متنازع قانون کی راہ ہموار کی تھی۔
اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہماچل پردیش میں کانگریس کی حکومت ہے۔ یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ کانگریس کی حکومت نے بھی ایک انتہائی متنازع قانون کو نافذ کرنے میں دلچسپی لی ہے۔
اتر پردیش کے بیشتر اضلاع میں انتظامیہ یا پولیس کی طرف سے مسلمانوں کو دھمکائے جانے کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ مسلم ریسٹورنٹ مالکان کا کہنا ہے کہ اس متنازع قانون کے ذریعے معاشرے کو تقسیم کیا جارہا ہے۔
اتر پردیش میں بی جے پی کے ترجمان پروین گارگ کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد حفظانِ صحت کے اصولوں کو لاگو کرنا ہے، کسی کو کام کرنے سے نہیں روکا جارہا۔
اتر پردیش کے بہت سے ریسٹورنٹس سے مسلم ملازمین اور بالخصوص باورچی فارگ کیے گئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مذہبی بنیاد پر اچھی خاصی کشیدگی پیدا ہوچکی ہے۔ جو لوگ کسی بھی ریسٹورنٹ میں ایک زمانے سے کام کر رہے تھے اُنہیں اچانک فارغ کردیا گیا ہے۔
Comments are closed on this story.