Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

اگر آئی جی اسلام آباد کو نہ ہٹایا تو دوبارہ دھاوا بولیں گے، علی امین گنڈاپور

تیار رہو ہم پھر آرہے ہیں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا، رات بھر کہاں غائب رہے تھے؟ تفصیل بتا دی
اپ ڈیٹ 08 اکتوبر 2024 08:11pm
Ali Amin Gandapur clarifies how he returned from Islamabad - Aaj News

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے پانچ اکتوبر کو اسلام آباد احتجاج سے غائب ہونے اور 30 گھنٹوں تک غائب رہنے پر لب کشائی کردی ہے۔

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے منگل کو صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سوچا کے پی ہاؤس جاکر بیٹھتے ہیں، سوچا تھا کہ آئندہ لائحہ عمل وہیں بیٹھ کر طے کریں گے، اسی دوران آئی جی نے کے پی ہاؤس میں دھاوا بولا، پولیس والوں نے آنسو گیس اور فائرنگ شروع کردی۔

انہوں نے بتایا کہ اس دوران میرے ایک ساتھی نے مجھے وہاں سے نکال کر کے پی ہاؤس کے سامنے جو پکٹس بنی ہوئی ہیں وہاں پہنچا دیا، میں وہاں جاکر بیٹھ گیا، میں چار گھنٹے وہاں پر رہا، اس پکٹ میں میرے ساتھ میرا سمیع نام کا گارڈ بھی تھا۔

علی امین گنڈاپور نے کہا کہ میرے گارڈ نے بتایا کہ تمام سرکاری اور ذاتی گاڑیوں کے ٹائر پھاڑ دیئے گئے ہیں، میں نے کہا ایک گاڑی ارینج کرو اور مونال کی طرف بھیجو، چار گھنٹے بعد گاڑی کا بندوبست ہوا، تیز بارش ہو رہی تھی، پولیس کے ڈالے ہی ڈالے تھے، میں چھلانگ مار کر پکٹ سے نکلا اور چلتا ہوا گیا لیکن انہیں نظر نہیں آیا، صبح کی روشنی پوری طرح آئی نہیں تھی، میں نے گاڑیوں کو روکنے کیلئے ان پر پتھر مارے، نہ میرے پاس موبائل تھا نہ میری جیب میں ایک روپیہ تھا، بس اللہ کی ذات تھی اور میں تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جب میں نے پتھر مارے تو ایک گاڑی رکی، وہ وہی گاڑی تھی جو ارینج کی گئی تھی، ساتھ میں ایک موٹر سائیکل بھی تھی، وہ گاڑی میرا سی ایم ہاؤس کا ڈرائیور افتخار ڈرائیو کر رہا تھا، اور موٹر سائیکل پر میرے گارڈ عارف خٹک اور طارق تھے۔ جب روانہ ہونے لگے تو طارق میرے ساتھ گاڑی میں آکر بیٹھ گیا اور ہم روانہ ہوگئے۔ گاڑی کا نمبر ”اے اے 4263“ ہے، کے پی ہاؤس اسلام آباد کی سرکاری گاڑی تھی، موٹر وے کے ایم ٹیگ کی رسید بھی ہے۔

کے پی ہاؤس سیل: خیبر پختونخوا حکومت کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کی ہدایت

انہوں نے کہا کہ موٹر وے سے جب اترے تو میں وہاں سے ایک ضلعے کے ڈی پی او کے گھر پہنچا، وہ گھر پر موجود نہیں تھا، میرے بندے نے فون پر اس سے بات کرائی تو میں نے اسے کہا کہ مجھے سکیورٹی دو میں نے پشاور سی ایم ہاؤس جانا ہے، لیکن کسی کو اس بات کا پتا نہیں چلنا چاہئیے، جس پر اس نے کہا کہ اس کی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ یہ بات کسی کو پتا نہ چلے، تو میں نے کہا ٹھیک ہے چھوڑو پھر میں خود چلا جاتا ہوں، اس کے بعد وہاں سے نکل کر کہیں نہیں رکا اور سیدھا پشاور پہنچا۔

علی امین گنڈاپور نے کہا کہ صبح اٹھ کر میں نے اس ڈی پی او کا کال کی تو اس نے کہا سر میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میرا نام مت لینا میری نوکری چلی جائے گی، سوچو صوبے کا وزیر اعلیٰ جس کے وہ ماتحت ہے وہ اس کے گھر گیا تو وہ ڈر رہا ہے کہ نوکری چلی جائے گی، وہ کس سے ڈر رہا ہے کون ہے حاکم؟

انہوں نے اعلان کیا کہ جتنے کارکن ہمارے گرفتار ہوئے ہیں سب کو رہا کرایا جائے گا، اس گرتی ہوئی دیوار کا اگلا دھکا ہم دیں گے، عمران خان اگر حکم دے دے تو اگلا اقد شہباز شریف کا بیڈروم ہے، اگر آئی جی اسلام آباد کو نہ ہٹایا تو دوبارہ دھاوا بولیں گے، اس نے میرے صوبے پر حملہ کیا ہے، نعرہ مارو ’سادا حق ایتھے رکھ‘، تیار رہو ہم پھر آرہے ہیں۔

Ali Amin Gandapur

KPK House