سندھ اور بلوچستان حکومت کے درمیان ’کتے کی قبر‘ پر تنازع، ماجرہ کیا ہے؟
سندھ میں کھیرتھر کے پہاڑی سلسلہ میں سندھ کے شہداد کوٹ اور بلوچستان کے خضدار ضلع کے درمیان ’کتے کی قبر‘ واقع ہے جو خوبصورت مناظر اور پہاڑی سلسلہ میں سندھ کا سب سے بلند سیاحتی مقام ہے۔
یہ نام ہے ساڑھے سات ہزار فٹ بلندی پر موجود سیاحتی مقام کا سندھ اور بلوچستان اس تفریحی مقام کی ملکیت کے دعوے دار بھی ہیں۔
1885 میں انگریز پہلی بار اس مقام پر پہنچے مرزا قلیچ بیگ اور ایم ایچ پنہور نے اپنے سفر ناموں میں لوگوں کو اس علاقے سے روشناس کرایا۔
یہاں ایک کتے کی قبر موجود ہے جس کی وجہ سے اس علاقے کا نام کتے کی قبر کہلایا جاتا ہے۔ مقام انتہائی بلندی پر ہونے کی وجہ سے یہاں کا درجہ حرارت کم ہی رہتا ہے۔
سڑک اور دیگر سہولیات نہ ہونے کے باعث یہ سیاحتی مقام عوام کی نظروں سے اوجھل ہے کچھ سیاح دشوار گزار راستوں سے گزر کر یہاں پہنچتے ہیں۔
اگر حکومت سہولتیں فراہم کردے تو سیاحوں کی بہت بڑی تعداد یہاں کا رخ کرسکتی ہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے ’کتے کی قبر‘ کو قومی ورثہ بھی قرار دیا گیا ہے اور بتایا گیا کہ مذکورہ مقام کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔
کتے کی قبر کا تنازعہ کیا ہے؟
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ’کتے کی قبر‘ کے علاقے میں گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ اس علاقے میں بلوچ قبائل کے ساتھ سندھی قبائل چُھٹا اور گھائنچا برادریاں بھی مقیم ہیں۔
حکومت سندھ اور بلوچستان کے درمیان اس علاقے کی حدود کو لے کر سنہ 2018 میں تنازع شروع ہوا تھا۔ اس وقت کے سندھ کے سینیئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ ’کتے کی قبر‘ کا علاقہ سندھ کا حصہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
سابق صوبائی وزیر سندھ نثار کھوڑو نے 1876 کا گزٹ دکھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کتے کی قبر کا علاقہ تقریباً ڈھائی لاکھ ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے جو کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں ٹھنڈا علاقہ ہے جو گورکھ ہل اسٹیشن سے بھی اونچا مقام ہے۔
اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی سردار خان چانڈیو کا کہنا ہے کہ انگریز دور حکومت سے ’کتے کی قبر‘ سندھ کا علاقہ رہا ہے، سروے آف پاکستان میں بھی اس کی شہادت موجود ہے، بلوچستان کی طرف سے اس علاقے کو اپنا کہنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
ان سے قبل جمعیت علما اسلام کے مرکزی نائب امیر اور رکن قومی اسمبلی مولانا قمر الدین کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ ضلع خضدار کے علاقوں ڈھاڈارو اور ’کتے کی قبر‘ کو صوبہ سندھ کے علاقے شہداد کوٹ میں شامل کرنا لوگوں کے احساسات اور جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے ضلع خصدار کے علاقے ڈھاڈارو اور کتے کی قبر کو صوبہ سندھ کے انتخابی حلقے شہداد کوٹ قمبر میں شامل کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن، سندھ حکومت کی کچھ شخصیات کے توسط سے یہ نہیں چاہتا کہ ملک کے تمام صوبے اپنے جغرافیائی حدود میں رہ کر برادرانہ تعلق قائم کریں۔
مولانا قمر الدین نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت سندھ ایک سازش کے تحت بلوچستان کے سرحدی علاقوں جہاں جہاں قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں کو بلوچستان سے الگ کر کے سندھ میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس کو کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔
Comments are closed on this story.