داعش نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں تربیتی کیمپ بنا لیے، افغان طالبان کا مضحکہ خیز دعویٰ
افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک مضحکہ خیز دعویٰ کیا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ داعش نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں تربیتی کیمپ قائم کر لیے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر جاری ایک طویل تھریڈ میں لکھا کہ ’امارت اسلامیہ کے خصوصی دستوں نے دو ستمبر 2024 کو ڈائریکٹوریٹ آف کمپلائنس اینڈ اوور سائیٹ آف آرڈرز اینڈ ڈیکریز کے ملازمین پر حملے کے ذمہ دار باغی گروپ کے اہم ارکان کو گرفتار کر لیا ہے، اور وہ بامیان صوبے میں غیر ملکی سیاحوں پر حملہ سمیت کابل میں کئی دیگر حملوں میں ملوث ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے لکھا، ’اس گروپ کے خلاف کابل اور ننگرہار میں کارروائیاں کی گئی ہیں۔ ان کارروائیوں کے دوران حملے کے ماسٹر مائنڈ کے ٹھکانے سے ایک تاجک شہری کو گرفتار کیا گیا۔ یہ شخص خودکش حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ سپیشل فورسز نے ایک دھماکہ خیز جیکٹ، دو آتشیں اسلحہ اور گولہ بارود بھی قبضے میں لیا‘۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’مزید تفتیش سے معلوم ہوا ڈائریکٹوریٹ آف کمپلائنس اینڈ اوور سائیٹ کے ملازمین کو نشانہ بنانے والا حملہ آور بلوچستان کے شہر مستونگ میں واقع داعش خراسان کے تربیتی کیمپ سے افغانستان میں درانداز ہوا تھا‘۔
تھریڈ میں مزید کہا گیا کہ ’اس کے بعد کابل اور فاریاب میں کارروائیوں کے نتیجے میں دو باغیوں کو ختم کیا گیا، جب کہ متعدد کو حراست میں لے لیا گیا۔ گرفتار افراد میں سے کچھ حال ہی میں مستونگ، بلوچستان میں داعش خراسان کے تربیتی کیمپ سے افغانستان واپس آئے تھے‘۔
ذبیح اللہ مجاہد نے لکھا کہ ’یہ امر اہم ہے امارت اسلامیہ کے خصوصی دستوں کے ہاتھوں ہونے والی شکستوں کے ایک سلسلے کے بعد داعش خراسان کے بقیہ لیڈران اور کارندوں نے بعض انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں نقل مکانی کی ہے جہاں انہوں نے نئے آپریشنل مراکز، اڈے اور تربیتی کیمپ قائم کیے ہیں۔ ان نئے اڈوں سے، وہ افغانستان کے اندر اور دوسرے ممالک میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں‘۔
ترجمان طالبان نے مزید لکھا کہ ’وہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مذہبی اسکالرز، علماء، اور مذہبی، سیاسی اور روحانی تنظیموں کے اراکین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان باغیوں کو بعض بیرونی دھڑے اپنے مذموم ایجنڈوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں‘۔
Comments are closed on this story.