Aaj News

اتوار, دسمبر 29, 2024  
26 Jumada Al-Akhirah 1446  

آئینی پیکج کی منظوری کیلئے حکومت پھر پُرعزم، آئندہ ماہ پارلیمنٹ میں پیش کرنے امکان

مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت کے بغیر آئینی ترامیم کا منظور ہونا ممکن نہیں ہے، سینیٹر عرفان صدیقی
شائع 27 ستمبر 2024 09:41am

آئینی پیکیج پر اتفاق رائے نہ ہونے کے کئی ہفتوں بعد حکومت نے اسے جلد ہی پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اور اُمید ظاہر کی کہ اسے منظور کرانے کے لیے مطلوبہ حمایت حاصل کر لے گی۔

سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈرعرفان صدیقی نے صحافیوں کو بتایا کہ آئینی پیکیج اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ایوان میں پیش ہونے کا قومی امکان ہے۔ تاہم، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خاص طور پر سینیٹ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت کے بغیر آئینی ترامیم کا منظور ہونا ممکن نہیں ہے۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومتی اتحاد اس حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ رابطے میں ہے، جنہوں نے آئینی عدالت کے تصور کی حمایت کی ہے لیکن اہم معاملات پر وضاحت طلب کی ہے، جن میں ججز کی تعداد، تقرر کا طریقہ کار، مدت، ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس اسٹرکچر شامل ہیں۔

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ مجوزہ آئینی عدالت کی نوعیت وفاقی ہوگی اور اس میں تمام صوبوں کی نمائندگی ہوگی۔

اس موقع پرعرفان صدیقی نے یاد دلایا کہ سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان مئی 2006 میں طے پانے والے میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس تجویز کی پی ٹی آئی کے بانی عمران خان سمیت تمام اہم سیاسی رہنماؤں نے تائید کی تھی۔

ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں مجوزہ تبدیلیوں کے حوالے سے انہوں نے یاد کیا کہ 18ویں ترمیم سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان اور صوبائی چیف جسٹسز کا ججوں کی تقرری میں اہم کردار تھا۔ 2010 میں منظور کردہ 18ویں آئینی ترمیم کا مقصد طاقت کے توازن کو بحال کرنا تھا، جس میں دو طریقے متعارف کرائے گئے: چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن اور حکومت اور اپوزیشن کی یکساں نمائندگی کے ساتھ 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی۔

تاہم انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ 19ویں ترمیم کی منظوری نے تقرری کے عمل میں پارلیمنٹ کے کردار کو مؤثر طریقے سے بے اثر کر دیا، جو اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دباؤ پر کیا گیا تھا۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ نے ’غیر ارادی طور پر‘ 19ویں ترمیم منظور کی، جس نے عملی طور پر عدالتی تقرریوں میں پارلیمانی کمیٹی کے کردار کو مفلوج کر دیا۔ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ موجودہ تجویز کا مقصد 18ویں ترمیم کی طرف لوٹنے کا ہے، جس سے پارلیمنٹ کو زیادہ بامعنی کردار ملے گا۔

پاکستان