پریکٹس اینڈ پروسیجرآرڈینینس منظور ہوتے ہی لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج
وزیراعظم، وفاقی کابینہ کی منظوری اور صدر مملکت کی جانب سے سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجرآرڈیننس پر دستخط ہونے کے ساتھ ہی صدارتی آرڈیننس لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج ہوگیا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نے پریکٹس اینڈ پروسیجرصدارتی ترمیمی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کردیا۔
گزشتہ روز صدر مملکت نے ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کیے جس کے تحت جسٹس آف پاکستان کے اختیارات میں اضافہ ہوگیا اور ساتھ ہی اس پرعمل بھی شروع ہوگیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سپریم کورٹ کے بینچ بنانے کے لیے قائم تین رکنی کمیٹی میں جسٹس منی اختر کی جگہ جسٹس امین الدین کو شامل کرلیا تھا۔
صدارتی آرڈیننس کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں وفاقی حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا۔ درخواست اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی۔
درخواست گزار نے کہا کہ صدارتی آرڈیننس بدنیتی پر مبنی ہے، آرڈیننس سےمتعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، صدارتی آرڈیننس کو کلعدم قرار دے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 10-5 سے آئینی قرار، سپریم کورٹ نے تمام درخواستیں مسترد کردیں
درخواست گزار نے کہا کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم یا زیادہ نہیں کیا جاسکتا، عدالت پٹیشن کے حتمی فیصلہ تک صدارتی آرڈیننس پر عمل درآمد روکنے کا حکم جاری کرے۔
سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کا آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار
دوسری جانب سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نے پریکٹس اینڈ پروسیجرصدارتی ترمیمی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کردیا۔اعلامیہ میں کہا کہ صدارتی آرڈیننس وکلاء برادری کی طویل جدوجہد سےانحراف ہے، صدارتی آرڈیننس ناقابل قبول ہے۔
سپریم کورٹ بار کے مطابق آرڈیننس وکلاء برادری کی طویل جدوجہدسےانحراف ہے، آرڈیننس کےاجراء وقت اوراندازپراپنی گہری تشویش ہے۔
سپریم کورٹ بار کے مطابق صدارتی آرڈیننس ایکٹ 2023 کومنسوخ کرنے کے مترادف ہے، سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کوبرقراررکھا تھا۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ ترمیمی صدارتی آرڈیننس بنیادی حقوق کے لیے نقصان دہ ہیں، تمام اسٹیلک ہولڈرز سے آئین کے تقدس،عدلیہ کی آزادی اور بنیادی حقوق کا پاس رکھیں۔
Comments are closed on this story.