پاکستان میں دو چیف جسٹس ہوں گے، کس کا وزن زیادہ - آئینی ترمیم کے مسودے سے واضح
پاکستان کے آئینی میں تجویز کی گئی 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے ساتھ ایک وفاقی آئینی عدالت قائم کر رہی ہے۔ اس آئینی عدالت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے علیحدہ ہوں گے۔ یوں ملک میں بیک وقت دو چیف جسٹس ہوں گے۔ اس بات کا اظہار آئین کے آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کی تجویز سے ہوتا ہے۔
آرٹیکل 175اے اعلیٰ علدیہ کے ججوں کے تقرر سے متعلق ہے۔ آئینی ترمیم کے بعد اس آرٹیکل کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا تقرر ایک کمیشن کرے گا۔
تجویز کی گئی ترمیم کے تحت ہائیکورٹس اور وفاقی شرعی عدالت کے ججوں کے تقرر میں وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کو اختیارات دیئے گئے ہیں۔ البتہ سپریم کورٹ کے ججوں کے تقرر میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا اختیار زیادہ رکھا گیا ہے۔
ہائیکورٹس اور وفاقی شرعی عدالت کے ججوں کا تقرر کرتے وقت کمیشن کے سربراہ وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس ہوں گے۔ وفاقی آئینی عدالت کے دو اراکین اس کے رکن ہوں گے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دو سینئر ججز بھی اس کمیشن کے رکن ہوں گے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان آئینی ترمیم پر ڈیڈلاک برقرار، مولانا سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقات بے نتیجہ
کمیشن کے دیگر اراکین میں وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل آف پاکستان، پاکستان بار کونسل کی جانب سے نامزد کردہ ایک سینئر ایڈووکیٹ اور سینیٹ اور قومی اسمبلی کے دو دو اراکین ہوں گے۔ ان میں سے ایک رکن حکومتی اور ایک اپوزیشن بینچوں سے لیا جائے گا۔
یہی کمیشن جب وفاقی آئینی عدالت کے ججوں کا تقرر کرے گا تو اس میں وفاقی آئینی عدالت کے ججوں کی تعداد دو سے بڑھا کر تین کر دی جائے گی۔ یہ تینوں جج سینئر ترین ہوں گے۔
البتہ کمیشن جب سپریم کورٹ کے ججوں کا تقرر کرے گا تو اس کی سربراہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کریں گے۔ کمیشن میں سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ترین جج بھی بیٹھیں گے جب کہ وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل، بار کونسل کا نامزد رکن اور اراکین پارلیمنٹ وہی رہیں گے جو دیگر ججوں کے تقرر کے وقت ہوں گے۔
اختیارات کی اس تقسیم سے بظاہر وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کا وزن بڑھا دیا گیا ہے۔ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو عدالت عظمیٰ تک محدو کر دیا گیا ہے۔
Comments are closed on this story.