مجوزہ آئینی ترمیمی میں سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے موجودہ اختیارات پر’کاری ضرب’
آئینی عدالت کے نام سے نئی عدالت قائم کرنے، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے موجودہ اختیارات کو کم کرنے کی تجویز ہے۔ وفاقی آئینی عدالت میں چاروں صوبوں سے ایک ممبر شامل ہوگا۔ وفاقی آئینی عدالت کا سربراہ یا جج پاکستانی شہریت کا حامل ہونا چاہیے۔ عدالتی اصلاحات کی مجوزہ آئینی ترمیم کو 26ویں آئینی ترمیم کا نام دیا گیا ہے۔ مسود 54شقوں پر محیط ہے۔
ترمیمی بل میں آئین کے آرٹیکل 17 میں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کی جگہ وفاقی آئینی عدالت شامل کرنے کی ترمیم کی تجویز شامل ہے۔ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے اختیار سے متعلق نئی شق آئینی ترمیم میں شامل ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے موجودہ اختیارات کو کم کیا جائے گا۔
وفاقی آئینی عدالت میں چاروں صوبوں سے ایک ممبر شامل ہوگا۔ تمام صوبوں کے لیئے یکساں نمائندگی ہو گی۔ سپریم کورٹ کے ججزکے لیئے بھی غیر ملکی شہریت پر پابندی برقرار رہے گی۔ سپریم کورٹ کا جج وفاقی آئینی عدالت میں جج 3 سال کے لیےتعینات ہو گا۔
وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68سال ہو گی ۔ جج کی تعیناتی سے متعلق سپریم جوڈیشل کمیشن کو مشترکہ بنانے کی تجویز مسودہ کا حصہ ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس سے حلف صدر لیں گے۔وفاقی آئینی عدالت کے احکامات تمام دیگر عدالتوں پر لاگو ہونگے۔ وفاقی آئینی عدالت کا چیئرپرسن اسلام آباد میں ہوگا۔ وفاقی آٗینی عدالت وفاق اور صوبوں کے مابین تنازع کے کیسز بھی سنے گی۔
ججزکی تقرری کے طریقہ کار میں بھی ترمیم کرنے کی تجویز ہے۔وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری کے کیے نام قومی اسمبلی کی کمیٹی وزیراعظم کو سفارش کرے گی۔ کمیٹی تین سینئر ترین ججزمیں سے چیف جسٹس کا انتخاب کرے گی۔ وفاقی آئینی عدالت کے پہلےچیف جسٹس کی تقرری صدر پاکستان ،وزیراعظم کی تجویز اور ججز کی تقرری صدر مملکت پہلے چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے۔
ججز کی تقرری کے لیے قومی اسمبلی کی کمیٹی آٹھ ممبران پر مشتمل ہو گی۔ کمیٹی کے ممبران کا سپیکر قومی اسمبلی تمام پارلیمانی پارٹی کے تناسب سے انتخاب کریں گے۔ کمیٹی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 7 روزقبل اپنی سفارشات وزیراعظم کو بھیجے گی۔
آئینی ترمیمی بل میں ہائی کورٹس سے سو موٹو لینے کا اختیار واپس لینے کی بھی تجویز ہے۔ ہائی کورٹ ججز کی ایک ہائی کورٹ سےدوسرے ہائی کورٹ تبادلے کی تجویز بھی شامل ہے۔ہائیکورٹ کے جج کے لیئے عمر کی حد 40سال کرنے کی تجویز ہے جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان ،اور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت کے بعد صدر ہائیکورٹ کے ججزکا تبادلہ کر سکیں گے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں وفاقی آئینی عدالت کا چیف جسٹس ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس شامل ہونگے۔ جوڈیشل کونسل میں ہائیکورٹ کے دو سینئر چیف جسٹس بھی شامل ہونگے۔ کسی بھی سورس رپورٹ پر سپریم جورڈیشل کونسل کسی بھی جج کو عہدے سے فارغ کر سکتی ہے۔ ۔آرٹیکل 199کے تحت ہائیکورٹ کے فیصلوں کو وفاقی آئینی عدالت میں چیلینج کیا جا سکے گا۔
Comments are closed on this story.