کوئی شخص پارٹی ڈسپلن کے خلاف ووٹ ڈالے گا تو نا اہل کیا جائے گا، وفاقی وزیر قانون
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ 63 اے میں ہم اس کی تشریح کرتے ہیں کہ کوئی شخص پارٹی ڈسپلن کے خلاف ووٹ ڈالے گا تو وہ بھی کاؤنٹ نہیں ہوگا اور اسے نااہل بھی کیا جائے گا، اگر اس کا ووٹ گنا نہیں جائے گا تو سزا کس بات کی ہوگی۔
چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس ہوا، جس میں قائدایوان نائب وزیراعظم سینیٹر اسحاق ڈار نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خصوصی کمیٹی کا قیام پارلیمان کا وقار بحال کرنے کیلئے ہے، اس میں سینیٹ ارکان کو بھی شامل ہونا چاہیے،اسحاق ڈار کا کہنا تھا ہمیں اصولوں کی سیاست کو نہیں چھوڑنا چاہیے، پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں آدھے گھنٹے میں22 ترامیم ہوئی تھیں، ہمیں اصولوں کی سیاست کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا جو چیزیں 18 ویں ترمیم میں اس وقت نہیں ہو سکی تھی اس کو ہم ابھی کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، آئینی عدالت کا تصور نیا نہیں ہے اور اس کی بے پناہ پذیرائی ہے۔
قائدایوان نے کہا کہ اسی طرح انہونا فیصلہ آیا کہ آپ اگر پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دیں گے تو آپ کا ووٹ گنا نہیں جائے گا اور آپ ھاؤس کی ممبرشپ سے بھی فارغ ہوجائیں گے، تو یہ کیسا قانون ہے؟انہوں نے مزید کہا کہ جب اس کی آئین کے آرٹیکل 63 اے میں سزا موجود ہے کہ جب آپ غلطی تسلیم کریں گے تو پھر آپ کی ممبرشپ ختم ہوگی لیکن اس کی غلط تشریح کی گئی، نہ ووٹ گنے گئے اور نہ ہی ممبرشپ ختم کی گئی۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ عوام کو انصاف نہیں ملتا، میں حیران تھا جب مجھے وزیر قانون نے بتایا کہ گیارہ گیارہ سال پہلے پٹیشنز ڈالی ہوئی ہیں اور وہ لگی نہیں ہیں اور لوگ اپنی سزا کاٹ کر اپنے گھر پہنچ چکے ہیں، کیا اس ملک میں یہی عدالتی نظام ہے اور کیا لوگوں کو اسی رفتار سے انصاف فراہم کیا جائے گا، ہمیں مل کر ان چیزوں کو ٹھیک کرنا ہوگا اور جب یہ بل لایا جائے گا تو کوئی بھی ذی شعور شخص یہی کہے گا کہ اس میں بہتری ہوگی،ان کا کہنا تھا کہ ہم وہ قانون سازی کریں گے جو ملکی اور عوامی مفاد میں ہوگی۔
جس پر اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ پر ایک اپیل لگی ہوئی ہے،جو پارٹی لائن کراس کرے اس پر ریفرنس بھیجیں گے کہ اسکو نااہل کیا جائے، سپریم کورٹ نے کہا کہ 63 اے میں ہم اس کی تشریح کرتے ہیں کہ کوئی شخص پارٹی ڈسپلن کے خلاف ووٹ ڈالے گا تو وہ بھی کاؤنٹ نہیں ہوگا اور اسے نااہل بھی کیا جائے گا، اگر اس کا ووٹ گنا نہیں جائے گا تو سزا کس بات کی ہوگی۔
انہوں نے کہا یہ درخواست گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے نظر ثانی میں پڑی ہوئی ہیں، 63 اے کو جس طرح قانون سازوں نے آئین میں مرتب کیا ہے وہ بلکل واضح ہے اس کی تشریح اس کی روح کے منافی نہیں ہوگی تو پھر لوگ اس پر بات کریں گے اور اس قسم کی چیزوں پر اور وضاحت آنی چاہیے۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے اس حوالے سے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سزا تب ملے گی جب کوئی جرم ہو،فلور کراسنگ پر ووٹ اگر کاؤنٹ نہیں ہوتا تو سزا کس کے لیے ہے، سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کیس میں آئین کو نئے سرے سے لکھا ہے، اس کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر ہوئے ڈیرھ سال ہوگیا ہے، سپریم کورٹ آئین کو دوبارہ نہیں لکھ سکتی، یہ صرف پارلیمنٹ کا استحقاق ہے۔
سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ ایک عرصہ سے عدلیہ نے کھلم کھلاآئین کے خلاف جا کر ایک پارٹی کی حمایت کی اور اس کے لیے آئین کو نئے سرے سے لکھا گیا، خارجہ پالیسی عوام کے مفاد کے لیے بننی چاہیے نہ کہ کسی خاص ادارے کے لیے ہونی چاہیے،ہم عوامی مفاد میں حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے، مسلم لیگ (ن) ووٹ کو عزت دے گی، اور ہم اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔
فُل کورٹ کے ذریعے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس دائر کیا جائے، پی ڈی ایم کا مطالبہ
ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون عوامی مفاد کے لیے نہیں حکومتی مفاد کے لیے ہے، عوامی مفاد کی بات کوئی نہیں کررہا جس میں مہنگائی کا طوفان، ٹیکسز کی بھرمار شامل ہے اور ہم نے سنا ہے ایک نیا منی بجٹ آرہا، جس میں مزید ٹیکسز کی بھرمار ہوگیل۔
سینیٹر ایمل ولی خان نے مزید کہا کہ چیئرمین سینیٹ گواہ ہیں اس بات کے جب انہوں نے ہمیں کہا کہ آپ حکومت کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا اپوزیشن کا؟ تو میں نے کہا ہم نہ اس حکومت کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور نہ اس اپوزیشن کا، سینیٹر شبلی فراز نے جو آج تقریر کی وہ اپوزیشن لیڈر کی نہیں بلکہ پی ٹی آئی لیڈر کی تقریر تھی۔
حکومت نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کردیا
بعد ازاں، سینیٹ اجلاس کے دوران ایوان میں پاور سیکٹر میں ڈسکوز کے نئے بورڈز سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیا گیا۔
وفاقی وزیر مصدق ملک نے توجہ دلاؤ نوٹس پر جواب دیتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ ہمارے پاس 11 کمپنیاں ہیں، 3 بورڈز کے نوٹیفکیشن نہیں ہوئے جبکہ ہیسکو، سیپکو بورڈ کے نام وزیراعظم کو بھیج دیے ہیں، کابینہ کی منظوری کے بعد نوٹیفکیشن جاری ہو جائے گا، سینیٹ میں حکومتی رکن سرمد علی نے کورم کی نشاندہی کی جس کے بعد اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی پر شور شرابہ کیا۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے مؤقف اپنایا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت کورم کی نشاندہی نہ کرتی،اپوزیشن کی طرف سے کورم کی نشاندہی ہونی چاہیے تھی،اس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے 5 منٹ کے لیے گھنٹیاں بجوائیں، اس موقع پر سینیٹر ہمایوں مہمند نے بتایا کہ حکومت کی فرنٹ سیٹس سے کہا گیا کہ کورم کی نشاندہی کرائی جائے جبکہ حکومت یہ ایوان چلنے نہیں دے رہی،کورم کی نشاندہی کے بعد چیئرمین سینیٹ نے اجلاس کل سہہ پہر 4 بجے تک ملتوی کردیا۔
Comments are closed on this story.