بچے کی حوالگی کا معاملہ : دبئی کے عدالتی فیصلے کے آگے برطانوی عدلیہ بے بس
والد کی اجازت لیے بغیر بچے کو برطانیہ لے جائے جانے والے بچے کو متحدہ عرب امارات کی عدالت کے حکم پر واپس لیا گیا۔ برطانوی عدلیہ اس معاملے میں بے بس رہی۔
فیملی کے مستقبل کے تمام فیصلے یو اے ای کی عدالتوں میں طے کیے جائیں گے۔ ایک شیر خوار کو اُس کی والدہ، والد کی اجازت کے بغیر برطانیہ لے گئی تھی۔ یو اے ای کی عدالت کے حکم پر بچے کو دبئی واپس لایا گیا ہے۔
برطانوی ہائی کورٹ نے دبئی کو بچے کا ایسا مسکن قرار دیا جس کی اُسے عادت ہے۔ یوں برطانوی عدالت نے والد کے حق کو مقدم رکھتے ہوئے بچے کو دبئی لے جانے کا حکم دیا۔
آرامس انٹرنیشنل لائرز لمٹیڈ کی سولسٹر، ڈائریکٹر اور بانی ثمرہ اقبال نے خلیج ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے موکل کے ایک بڑا ریلیف ہے۔ اور اس سے بیرونِ ملک مقیم افراد کا یہ حق بھی تسلیم کرلیا گیا ہے کہ اُن کی اولاد اُن کے پاس ہونی چاہیے۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق بچہ تقریباً دو سال کا ہے اور اُس کے والدین اب شادی شدہ نہیں ہیں۔ ثمرہ اقبال نے کہا کہ ہم نے یو اے ای کے قوانین کے بارے میں ماہرانہ رائے بھی لی اور یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ بچے کے والد اُسے واپس لانے کے حوالے سے عدالت کو قائل کرسکیں۔ اور عدالت قائل ہوگئی۔
دسمبر 2023 میں اس فیملی نے مستقل طور پر دبئی میں رہنے کے لیے برطانیہ کو چھوڑ دیا تھا۔ بچے کی والدہ اُسے اپریل 2024 میں والد کی اجازت کے بغیر انگلینڈ لے گئی۔
یو اے ای کی عدالت نے بچے کو واپس لانے کا حکم تو دیا تھا تاہم ساتھ ہی ساتھ والدہ کو یہ حق دیا تھا کہ وہ نگہداشت کے لیے ساتھ رہیں مگر والدہ نے انگلینڈ میں رہنے کو ترجیح دی۔
ثمرہ اقبال نے مزید کہا کہ یو اے ای کے قوانین کے تحت بچے کے والد اب اُس کے اور اُس کی والدہ کے درمیان رابطے یقینی بنارہے ہیں۔ جب تک عدالت بچے کی طویل المیعاد نگہداشت کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کرتی تب تک بچہ والد کے پاس یو اے ای میں رہے گا۔
ثمرہ اقبال نے بتایا کہ اس کیس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر یو اے ای میں کوئی تارکِ وطن اپنے بچے سے غیر قانونی طور پر محروم کردیا جائے تو عدالت اُسے بچے کی حوالگی واپس دلانے کو ترجیح دے گی۔
Comments are closed on this story.