پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا، چیف جسٹس
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا ہے کہ گالم گلوچ برداشت نہیں کریں گے، کیس پر جتنی تنقید کرنی ہے کریں ذاتیات پر نہ جائیں، مثبت دلائل دیں سراہیں گے، مفروضوں یا ذرائع پر بات کرنے کی ضروت نہیں، کیس کا فیصلہ مفروضوں پر نہیں شواہد اور ثبوت پر ہوتا ہے، پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا، اب توخود مجھے بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں جانب کون سے ججز کیس سنیں گے، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے ذریعے ہی مقدمے لگائے جاتے ہیں، ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ضرور ہوتا ہے، اتنا تعین ہوجاتاہے کہ فلاں جج کے پاس کیس لگا تو پراسیکیوشن کا وزن کیا ہوگا، اب یہ کسی کی قسمت ہے کہ کس کا کیس کہاں لگ گیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس منعقد ہوا جس کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کی۔
جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس منیب اختر فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے، جسٹس منصور علی شاہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے شریک نہیں، ایڈہاک ججزجسٹس مظہر عالم میاں خیل بھی فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ شریعت اپیلیٹ بینچ کے ارکان جسٹس قبلہ ایاز اور جسٹس خالد مسعود فل کورٹ ریفرنس میں شریک ہیں۔
نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سب سے پہلا کام بطور چیف جسٹس فل کورٹ بلانا ہی کیا تھا، اس سے پہلے 4 سال تک ہم سب ججز ایسے ملے ہی نہیں تھے، اس میٹنگ میں فیصلہ کیا تھا مفاد عامہ کے مقدمات براہ راست نشرہوں گے، عام طور پر عوام وہی دیکھتے سمجھتے تھے جو کوئی ٹی وی چلائے، ہم نے فیصلہ کیا کہ عوام خود ہماری کارکردگی دیکھیں، عوام خود دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں ہم میں شفافیت ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح کی تقریب میں اس بات پر نظرڈالی جاتی ہے کہ ادارے کی کارگردگی کیسی رہی، اٹارنی جنرل اور بارز کے نمائندوں نے بتایا کہ کس طرح کارگردگی بہتر کی جا سکتی ہے، 9 روز بعد میرا بطور چیف جسٹس پاکستان ایک سال مکمل ہوجائے گا، میں جب چیف جسٹس بنا تو 4 سال میں پہلی مرتبہ فل کورٹ اجلاس بلایا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مدت ملازمت میں توسیع لینے سے صاف انکار کردیا
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ میں نے سپریم کورٹ کی سماعتیں براہ راست نشر کرنے کا آغاز بھی کیا، پہلا مقدمہ جو براہراست دکھایا گیا وہ پریکٹس ایند پروسیجر ایکٹ کا تھا جو فل کورٹ نے ہی سنا، اس فیصلے کے بعد اختیار چیف جسٹس سے لے کر 3 ججز کو سونپے گئے، پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہوگا، اب تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں کون سے ججز کیس سنیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا اب کیس لگنے سے پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ فیصلہ کیا ہوگا، اگر نہیں پتہ چلتا فیصلہ کیا ہوگا اسکا مطلب ہے شفافیت آئی ہے، پہلے جمعرات کو چیف جسٹس کاز لسٹ کی منظوری دیتے تھے، کاز لسٹ میں تبدیلی کا اختیار چیف جسٹس کا تھا اب یہ اختیار ختم کردیا گیا ہے، رجسٹرار کا کام ہے مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنا، اب کاز لسٹ چیف جسٹس کے پاس نہیں آتی۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کو 3 ہزار سی سی مرسڈیز بینز کی ضرورت نہیں تھی، لاہور رجسٹری میں کھڑی بلٹ پروف لینڈ کروزر بھی حکومت کو واپس بھیجی گئی، حکومت کو کہا ان گاڑیوں کو بیچ کر عوام کے لیے بسیں خریدے، ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ہوتا ہے، اتنا تعین ہو ہی جاتا ہے کہ فلاں جج کے پاس کیس لگا تو پراسیکیوشن کا وزن دیں گا یا نہیں، یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے، لوگوں نے 30،40 سال میں بہت کچھ سیکھا ہوتا ہے، کسی نہ کسی طرف اتنے تجربے میں رجحان بن جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اب یہ کسی کی قسمت ہے کہ کس کا کیس کہاں لگ گیا، سپریم کورٹ میں ڈیپوٹیشن پر آنے والے تمام افراد کو واپس بھیجا گیا ہے، ڈیپوٹیشن پر آنے والے 3 سال سے زیادہ کسی جگہ تعینات نہیں رہ سکتے، جن کی مدت مکمل ہوچکی تھی انہیں واپس بھیجا گیا ہے، ڈپوٹیشن پر آنے والوں کی وجہ سے سپریم کورٹ ملازمین کی ترقی رک جاتی تھی، ڈیپوٹیشن پر آنے والوں کی واپسی سے سپریم کورٹ کے 146 ملازمین کی ترقی ہوئی78 نئی تعیناتیاں ہوئیں، اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں خالی آسامیوں کو بھی فل کیا گیا، عوام چاہتی ہے ان کے مقدمات جلد نمٹائے جائیں اور ان کا پیسہ بچ سکے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ پرانے صحافی کہتے چیف جسٹس نے مقدمہ نہیں لگایا۔ اب مقدمات چیف جسٹس نہیں لگاتا کمیٹی لگاتی ہے، تبصرہ کیجیے لیکن سچ بولیے اور سچ بتائیے۔ مفروضہ پر نہیں آپ کی ذمہ داری کہ سچ آگے پہنچائیں۔ یہ بات میں بطور جج نہیں کہہ رہا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہو تو اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ دوسروں کا احتساب کریں اور عدلیہ اپنا احتساب نہ کرے تو فیصلوں کی اہمیت نہیں رہتی۔ سپریم کورٹ کے ایک جج پر الزام لگا، کھلی عدالت میں کیس چلایا گیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے ہی ایک جج کو برطرف کیا۔مارگلہ ہلز نیشنل پارک کیس کا فیصلہ کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چیف جسٹس ہاؤس میں مور رکھے ہوئے تھے، چیف جسٹس کا موروں سے کیا تعلق؟ موروں کو رہا کروا کر کلر کہار بھیجا، کہتے ہیں جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا؟ موروں کو جنگلوں میں ہی ناچنا چاہیے۔کیس مینجمنٹ کمیٹی بنائی جس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔جسٹس منصور علی شاہ کیس مینجمنٹ کے حوالے سے اپنی رپورٹ دیدی ہے۔ جسٹس منیب اختر کی رپورٹ ابھی تک موصول نہیں ہوئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد مکمل کرکے ایڈہاک ججز کو تعینات کیا گیا۔ صرف پلاننگ سے کیسز کم نہیں ہوتے عدالت میں بیٹھ کر مقدمات سننے ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں تاریخیں دینے کا رواج ختم ہوچکا ہے۔ جسٹس مظہرعالم کے بھانجے کا انتقال ہوا ہے آج وہ اس لئے موجود نہیں ہیں۔ ایڈہاک ججز نے چھٹیوں کے دوران 245 کیسز نمٹائے ہیں۔ آئندہ نئے عدالتی سال میں بھی جہاں سے اچھی آرا ملے اس پر عمل کریں۔
بے گناہ کا دہائیوں تک جیل میں رہنا سانحے سے کم نہیں اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے عدالتی سال کی تقریب ماضی سے سبق سیکھنے کا بھی ایک موقع ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال بھی کہا تھا جوڈیشل سسٹم میں اہم ترین وہ عام سائلین ہیں جو انصاف کے لیے رجوع کرتے ہیں، سائلین کی امیدیں ٹوٹنے کی ذمے داری نظام انصاف سے منسلک ہم تمام لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر سے زیادہ سائلین کو کوئی اور چیز ناامید نہیں کرتی، فوجداری مقدمات میں لوگوں کی آزادی اور زندگیاں داؤ پر لگی ہوتی ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے مزید کہا کہ کئی مرتبہ ملزمان اور مجرمان کے مقدمات کی باری آنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں، بے گناہ کا دہائیوں تک جیل میں رہ کر رہا ہونا کسی سانحے سے کم نہیں ہوتا، ہمیں اپنے سول نظام انصاف میں تاخیر کا بھی ازالہ کرنا چاہیئے، زیرالتوا مقدمات 56,000 سے بڑھ کر60,000 سے زائد ہوگئی، زیرالتوا میں سالانہ اضافے روکنے اورکم کرنے کیلئے منظم طریقہ کاراختیار کرے۔
انہوں نے سزائے موت کے قیدیوں سے متعلق جسٹس جمال مندوخیل کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے فیصلے میں قیدیوں کے حالات کی بہترین عکاسی کی۔
قابل ترین ججز کو عدلیہ میں لانے کا پراسیس اپنانا ہو گا، فاروق ایچ نائیک
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل فاروق ایچ نائیک نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کے اسکوپ اور استعمال کے اثرات پر کافی سوالات اٹھے، سیاسی مقدمات میں توہین عدالت کا اختیار استعمال ہونے پر بحث نے طول پکڑا۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا ہے کہ بحث شروع ہوئی کہ جوڈیشل اتھارٹی اور اظہار رائے کی آزادی کے درمیان توازن قائم ہونا چاہیئے، نئے عدالتی سال پر عدلیہ کے اندرونی چیلنجز کو بھی دیکھنا ہو گا، نظام انصاف کی طاقت کا انحصار ججوں کے معیار پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ قابل ترین ججز کو عدلیہ میں لانے کا پراسیس اپنانا ہو گا، میرٹ کی بنیاد پر ججوں کی بھرتی کیلئے سخت طریقہ کار اپنانا ہو گا، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان عدالتی اختیار نہیں رکھتا، پارلیمانی کمیٹی کا جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کے برعکس کوئی فیصلہ عدلیہ میں مداخلت نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کا کہنا ہے کہ ماضی میں جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی میں ہم آہنگی رہی، منیر بھٹی کیس کے فیصلے نے پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات محدود کیے، پارلیمانی کمیٹی کے ارکان سمجھتے ہیں یہ فیصلہ ان کے اختیارات پر’انکروچمنٹ’ ہے، منیر بھٹی فیصلے پر سپریم کورٹ کو نظرثانی کی ضرورت ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سوموٹو اختیارات کے استعمال کا طریقے کار وضع کرنے کی ضرورت ہے، تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے طریقے کار بہتر بنایا جا سکتا ہے، سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کی ضرورت ہے۔
Comments are closed on this story.