افضل گورو کو پھانسی نہیں دینی چاہیے تھی، عدالتیں بھی غلطی کرسکتی ہیں، عمر عبداللہ
مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزیرِاعلیٰ عمر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ افضل گورو کو پھانسی دینے سے بھارت کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ جموں و کشمیر کی سابق حکومت نے اس پھانسی کی منظوری کبھی نہ دی ہوتی۔
ایک انٹرویو میں عمر عبداللہ نے کہا کہ میں ذاتی طور پر سزائے موت کے حق نہیں ہوں کیونکہ کسی کو ناکردہ جرم کی بنیاد پر سزائے موت دے دی جائے اور وہ بعد میں بے قصور ثابت ہو تو پورے نظامِ عدل کو شدید خفت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نیوز ایجنسی اے این آئی سے گفتگو کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ افضل گورو کی پھانسی سے جموں و کشمیر کی حکومت کا کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ بہرحال اس پھانسی سے مرکزی حکومت کو کسی بھی طرح کا فائدہ نہیں پہنچ سکا اور انصاف کے تقاضے بھی پورے نہ ہوئے۔
یاد رہے کہ افضل گورو پر دسمبر 1999 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملوں کا ماسٹر مائنڈ ہونے کا الزام تھا۔ افضل گورو نے ہمیشہ یہی کہا کہ اُن کا اس حملے سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہ تھا۔ انہیں 9 فروری 2013 کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
عمر عبداللہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں سزائے موت کے خلاف اس لیے ہوں کہ میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ عدالتیں غلطی نہیں کرسکتیں اور یہ کہ تمام ہی عدالتی فیصلے بالکل درست ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ عدالتیں شواہد کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں، کوئی منطق یا دلیل نہیں دیکھتیں۔ اگر شواہد غلط بھی ہوں اور مدعا علیہ اپنے میں ٹھوس شواہد پیش کرنے سے قاصر رہے تو عدالت سزا سنا دیتی ہے۔
Comments are closed on this story.