Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

2030 تک آٹو سیلز میں نصف حصہ برقی گاڑیوں کا ہوگا، بی وائے ڈی پاکستان

چینی کمپنی 'بائے یور ڈریم' 2026 تک پاکستان میں اپنا مینوفیکچرنگ پلانٹ لگانا چاہتی ہے۔
شائع 06 ستمبر 2024 07:34pm

چینی کمپنی بائی یور ڈریم (بی وائے ڈی) نے کہا ہے کہ 2030 تک پاکستان میں فروخت ہونے والی گاڑیوں میں سے نصف برقی گاڑیاں ہوں گی۔ بی وائے ڈی پاکستان 2026 تک یہاں اپنا مینوفیکچرنگ پلانٹ لگانا چاہتی ہے تاہم اِسی سال بی وائے ڈی گاڑیوں کی فروخت شروع ہوجائے گی۔

اگست میں تین ماڈل لانچ کیے جاچکے ہیں۔ بی وائے ڈی چین کی بی وائے ڈی اور پاکستانی کار گروپ میگا موٹرز کے درمیان پارٹنرشپ کا نام ہے۔

امریکی کھرب پتی سرمایہ کار وارن بفیٹ کے حمایت یافتہ چینی الیکٹرک وہیکل جاینٹ بی وائے ڈی نے گزشتہ ماہ پاکستان کی 25 کروڑ افراد کی مارکیٹ میں میں انٹری کا اعلان کیا تھا۔

بی وائے ڈی پاکستان کی چھتری تلے یہاں ایک مینوفیکچرنگ پلانٹ لگانے کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ گاڑیوں کی فروخت رواں سال ہی شروع کردی جائے گی۔

بی وائے ڈی پاکستان کے ترجمان کامران کمال نے برطانوی خبر رساں ادارے کو ایک انٹرویو میں کہا کہ بہت جلد پاکستان میں نصف سے زائد گاڑیاں برقی ہوں گی۔ کامران کمال میگا موٹرز کی مالک کمپنی حب پاور کے سی ای او بھی ہیں۔

پاکستان میں جاپانی کار برانڈز ٹویوٹا، ہونڈا اور سوزوکی چھائے رہے ہیں۔ 30 جون 2024 کو ختم ہونے والے سال میں گاڑیوں کی فروخت کئی سال کی پست ترین سطح پر رہی۔

چند برسوں کے دوران جنوبی کوریا کے برانڈز کیا اور ہُنڈائی نے بھی پاکستانی مارکیٹ میں اپنا شیئر قائم کرنے کی تگ و دَو شروع کی ہے۔ ساتھ ہی چین کی کمپنیاں چینگن اور ایم جی بھی ہائبرڈ گاڑیوں کے ساتھ میدان میں ہیں۔

بی وائے ڈی پاکستان نئے انرجی وہیکل کے ساتھ پاکستانی مارکیٹ میں انٹری دینے والا پہلا بڑا ادارہ ہے۔ ایک سال کے دوران پاکستان میں پیٹرول اور بجلی سے چلنے والی (ہائبرڈ) گاڑیوں کی تعداد دُگنی سے زیادہ ہوگئی ہے۔

عارف حبیب لمٹیڈ میں آٹو سیکٹر کے تجزیہ کار محمد ابرار پولانی کہتے ہیں کہ 2030 تک یہ ممکن دکھائی دیتا ہے نئی توانائی والی گاڑیوں کی تعداد میں 30 فیصد کا ہدف حاصل کرلیا جائے۔ اگر بنیادی ڈھانچے سے متعلق رکاوٹیں دور کرلی جائیں تو یہ ہدف 50 فیصد تک بھی ہوسکتا ہے۔

کامران کمال کا کہنا ہے کہ بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے چیلنج کا سامنا حکومتی منصوبوں کے ذریعے کیا جائے گا تاکہ ملک میں ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جاسکے۔

اگست میں مقامی میڈیا نے بتایا تھا کہ وزارتِ توانائی نے برقی گاڑیوں کے لیے چارجنگ اسٹیشنز کے حوالے سے معیارات متعین کرلیے ہیں۔ برقی گاڑیوں کو سڑکوں پر رواں رکھنے کے لیے ری چارجنگ کی سہولت فراہم کرنا لازم ہے۔

کامران کمال نے بتایا کہ بی وائے ڈی پاکستان دو آئل کمپنیوں کے اشتراکِ عمل سے چارجنگ انفرا اسٹرکچر قائم کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں نئی گاڑیوں کے سڑکوں پر آنے کے ساتھ ہی 20 سے 30 چارجنگ اسٹیشن قائم کیے جائیں گے۔

بی وائے ڈی پاکستان ابتدائی مرحلے میں پوری طرح اسمبل کی ہوئی گاڑیاں فروخت کرے گا۔ یہ گاڑیاں نسبتاً مہنگی ہوں گی کیونکہ اِن پر درآمدی ڈیوٹی زیادہ لگتی ہے۔ مختلف حصوں کی شکل میں لائی جانے والی گاڑیوں اور ملک میں اسمبلی کی جانے والی گاڑیوں پر درآمدی ڈیوٹی کی شرح کم ہوتی ہے۔

کامران کمال کہتے ہیں ہماری زیادہ توجہ تو اس بات پر ہے کہ مکمل طور پر پاکستان ہی میں اسمبل کی جانے والی گاڑیوں کو جلد از جلد سڑکوں پر لائیں۔ پاکستان میں درآمدی ڈیوٹی کے موجودہ ڈھانچے کے تحت تیار شدہ گاڑیوں کو لانا اور بیچنا دقت طلب ہے۔

electric vehicles

BYD PAKISTAN

HYBRID VEHICLES

NEV

KAMRAN KAMAL

MUHAMMED ABRAR POLANI

AUTO SALES