اختر مینگل کا استعفا کسی بھی صورت میں واپس لینے سے انکار، وزرا کا اظہار مایوسی
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ میں نے جس نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اس میں پارلیمنٹ بھی ہے، عدلیہ بھی ہے، سیاستدان بھی ہیں، سیاسی جماعتیں اور میڈیا بھی ہے۔
قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کے بعد آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا ہے میں کسی میڈیا کو انٹرویو نہیں دوں گا ماسوائے چند ایکنرز کے جنہیں بلوچستان کا مسئلہ سمجھ آرہا ہے۔ جب باقیوں سے بات کرتا ہوں کو آخر میں وہ یہی کہتے ہیں کہ ’بلوچستان دا مسئلہ کی اے‘۔
اختر مینگل نے کہا کہ یہ ’کی‘ پنجابی والا نہیں انگریزی والا ”Key“ ہے جس کا مطلب چابی ہے اور اس کا تالہ جی ایچ کیو میں رکھا ہوا ہے جسے کسی کو کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے قومی سطح پر بلوچستان کا مسئلہ سمجھنے کی کوشش کی، باتیں سنتے تو سب ہیں لیکن وہ سمجھ نہیں پارہے یا ان کو منع کیا جارہا ہے۔
انہوں نے اپنے استعفے پر کہا کہ سخت فیصلہ تھا اور نقصانات کا بھی فیصلہ ہے یہ، میں نے نہ اپنی پارٹی سے مشورہ کیا اور نہ اپنے فیملی ممبرز سے، کل میں نے اسپیکر سے رات گئے رابطہ کیا، میں نے قائد حزب اختلاف عمر ایوب سے بھی بات کی، اسد قیصر سے بھی بات کی، میں ان کی بہینچز پر جاکر ان سے ملا اور کہا کہ آپ کی لڑائی تو چلتی رہے گی، آپ لوگ برائے مہربانی مداخلت نہ کریں، انہوں نے کہا جی بالکل آج آپ بولیں ہم بیٹھے رہیں گے، لیکن میری تقریر شروع ہوئی تو دیکھا سب نکلتے گئے اورع تقریر سے پہلے کورم ٹوٹ گیا اور یہ بائی ڈیزائن تھا۔ میرے ساتھ بیٹھے ایم ڈبلیو ایم کے ممبر نے کورم کی نشاندہی کی۔
محمود اچکزئی اور شاہد خاقان کی ملاقات، اے پی سی طلب کرنے پر اتفاق
ان کا کہنا تھا کہ ایوان میں بلوچستان کا مسئلہ سننے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ دیواروں کے کان ہوتے ہیں ان کے وہ بھی نہیں ہیں۔
اختر مینگل نے کہا کہ استعفے کے بعد ابھی تک حکومت میں سے کسی نے رابطہ نہیں کیا، رابطہ کریں گے بھی تو کیسے کریں گے، جو بات میں 1988 تک انہیں سمجھا نہ سکا تو اب میرے پاس کونسی جادو کی چھڑی آگئی ہے جو میں ان کے سروں پر گھما کر انہیں سمجھاؤں گا۔
انہوں نے کہا کہ ’اب اگر ان کو بات کرنی ہے تو میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے‘، مجھے انہوں نے جب ایپکس کمیٹی میں بلایا تو میں نے انہیں واضح کردیا تھا کہ میں کوئی اسٹیک پولڈر نہیں ہوں، میں بلوچستان کی ترجمانی نہیں کر رہا، جن لوگوں کو آپ منتخب کرکے لائے ہیں ان سے جاکر بات کریں۔
حکومت، اختر مینگل سے ضرور رابطہ کرے گی، رانا ثناء اللہ
اختر مینگل نے کہا کہ ’ایپکس کمیٹی میں جو لوگ گئے تھے، ان سے آپ پوچھ کر دیکھیں کہ ان لوگوں نے کیا باتیں کی تھیں اور وہاں سے انہیں کیا جواب ملا‘۔
اختر مینگل نے کہا کہ ان لوگوں کو کہہد یا گیا تھا کہ جن لوگوں نےھ ببندوق اٹھائی ہے انہیں ہم نہیں چھوڑیں گے، ہم نے تو بندوق نہیں اٹھائی ہوئی، میں بندوق اٹھا کر اسمنبلی میں آیا تھا جو مجھے بات نہیں کرنے دی؟ 2018 سے آج تک میں نے اسمبلی میں کوئی غیر آئینی بات نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ میں انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ آپ لوگ ہوش کے ناخن لیں، انہوں نےہوش کے ناخن نہیں لئے۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ ’اب انہیں بات کرنی ہے تو کردسی والے جو بڑی آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں ان سے بات کریں جو سنگلاخ پہاڑوں پر جا کر بیٹھے ہوئے ہیں، اب ہمارے بس میں کوئی نہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ 23 جولائی 2023 کو جب ہماری وزیراعظم سے بات ہوئی تو میں نے انہیں کہا کہ اگر آپ کو ہمارا بولنا ہماری سیاست پسند نہیں تو ہم کنارہ کش ہوکر بیٹھ جاتے ہیں، پھر ہمارے نوجوان کسی پارٹی کے ساتھ جاتے ہیں یا عسکریت پسندوں کے ساتھ جاتے ہیں جو آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں تو ہم سے گلہ نہ کریں۔
اختر مینگل نے کہا کہ ’یہاں پر سیاستدان کوئی نہیں رہا، یہاں پر کاروبار ہو رہا ہے، سب کاروباری ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر سیاستدان کچھ نہیں کرسکتے تو اپنے آپ کو حکمران نہ کہیں اور حکمرانی کا ڈھونگ کرنا چھوڑ دیں، کہیں ہم سرکاری ملازم ہیں، ملازم اپنے آقا کے آگے بے بس ہوتا ہے۔
اختر مینگل نے نواز شریف سے بھی ناامیدی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ سب بے بس ہیں، بلوچستان کے معاملات ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں، یہ ہم روز اول سے کہہ رہے ہیں کہ ’بلوچستان کو سیاستدان اور وفاقی حکومت نہیں بلکہ جی ایچ کیو چلا رہا ہے‘۔
’روانگی سے قبل انجکشن لگائے گئے‘، گرفتار خارجی خودکش بمبار کا بیان سامنے آگیا
سردار اختر مینگل نے استعفا واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرا ذاتی اور اٹل فیصلہ ہے، اس پر میں کسی بھی طریقے سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ مجھے ان حکمرانوں سے ایک فیصد بھی امید ہوتی تو آج یہ قدم نہیں اٹھانا پڑتا۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم پی ٹی آئی کے ساتھ تھے تو مسنگ پرسنز پر وہ بھی ہمیں وہاں کا راستہ دکھا رہے تھے کہ آپ ڈی جی آئی سے جاکر ملیں، ڈی جی سی یا کور کمانڈر سے جا کر ملیں، وہاں ہمیں جانا ہے تو پارلیمنٹ میں کیوں بیٹھیں۔
اختر مینگل نے کہا کہ ’اس پورے تنازعے کے کچھ فائدہ اٹھانے والے ہیں اور وہ وہ ہیں جو آج اقتدار میں بیٹھے ہیں، ریاست کے وہ ادارے جنہیں اس تنازعے کی وجہ سے مالی فوائد مل رہے ہیں چاہے وہ ترقی کے نام سے ہو یا لا اینڈ آرڈر کے نام سے یا بارڈر پر اسگلنگ کے نام سے، بلوچستان کے تنازعے میں زیادہ تر فائدہ اٹھانے والے وہ ہیں جو کبھی نہیں چاہیں گے کہ بلوچستان مسئلہ حل ہو اور بدقسمتی سے وہ ریاست کے بڑے نمائندے بنے ہوئے ہیں، وہ ریاست کے مامے بنے ہوئے ہیں، وہ ریاست کیلئے ہر وہ کام کرنے کو تیار ہیں جس سے ریاست ان کی نوکری میں مزید اضافہ کرے‘۔
انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی کرنے سے انکار کیا۔
Comments are closed on this story.