سانحہ کارساز میں ملوث خاتون کی وکٹری کے نشان والی تصویر کی حقیقت کیا ہے
گزشتہ دنوں کارساز میں سڑک کا ایک المناک حادثہ ہوا جس میں باپ بیٹی جاں بحق ہوئے۔ اس حادثے نے ہر سطح کے میڈیا کی بھرپور توجہ حاصل کی اور اس حوالے سے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظرِعام پر آئی ہے۔
کچھ دن قبل ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں ملزمہ نتاشا کو عدالت کے باہر وکٹری کا نشانہ بناتے ہوئے اچھے موڈ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تصویر کو سوشل میڈیا پر لوگوں نے بھرپور جوش و خروش سے شیئر کیا۔
عام آدمی اگر جذباتی ہوکر ایسا کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ حد یہ ہے کہ عاصمہ شیرازی اور حامد میر جیسے سینیر صحافیوں نے بھی سوچے سمجھے بغیر اس تصویر کو شیئر کیا۔ بعد میں کسی نے توجہ دلائی تو عاصمہ شیرازی نے معافی مانگتے ہوئےتصویر کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ڈیلیٹ کردیا۔
فی زمانہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے کسی بھی تصویر کو کوئی بھی رنگ دینا ناممکن نہیں۔ نئی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاکر لوگ بڑے پیمانے پر جعلی تصویریں پھیلا رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے بنائی جانے والی جعلی تصویریں شیئر کرنے کا معاملہ پاکستان تک محدود نہیں۔ یہ تو پوری دنیا کا رجحان ہے کہ کسی بھی ویڈیو، تصویر یا آڈیو کے بارے میں تحقیق کی زحمت گوارا کیے بغیر آگے بڑھادیا جاتا ہے۔
ٹیکنالوجی کے ذریعے بنائی جانے والی کسی بھی جعلی تصویر کو پہچاننے کے لیے بھی ٹیکنالوجی سے مدد لی جاسکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے بنائی جانے والی تصویر کو متعلقہ ٹیکنالوجیز کے ذریعے پرکھا جاسکتا ہے۔ بعض صورتوں میں مصنوعی ذہانت یا کسی اور ٹیکنالوجی کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ تھوڑی سی توجہ سے کوئی بھی اندازہ لگاسکتا ہے کہ تصویر اصلی یا یا نقلی۔ بہت کچھ ہے جو صاف دکھائی دیتا ہے۔ کسی کے جسم پر چہرہ چپکایا گیا ہو تو غور کرنے سے اندازہ ہو جاتا ہے۔ ہاتھ، پاؤں بھی غور سے دیکھے جائیں تو گڑبڑ سمجھ میں آجاتی ہے۔
کسی بھی تصویر کے پس منظر کو غور سے دیکھنے پر بھی بہت کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ بعض تصویریں بناتے وقت بنیادی زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں حقیقت تک پہنچنا زیادہ دشوار نہیں ہوتا۔ ۔۔۔۔۔۔
Comments are closed on this story.