”ورک فرام ہوم“ نے گوگل کو پچھاڑ دیا
گوگل کے سابق چیف ایگزیکٹیو آفیسر ایرک شمٹ نے کہا ہے کہ گوگل کو ہائی ٹیک سیکٹر کی دوڑ میں پیچھے کرنے والا فیکٹر ”ورک فرام ہوم“ ہے۔ گھر بیٹھے کام کرنے سے کام کرنے کا جذبہ برقرار نہیں رہتا اور جدت طرازی کی لپک بھی ختم ہوجاتی ہے۔
اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے ایرک شمٹ نے کہا کہ دنیا بھر میں ورک فرام ہوم یعنی گھر بیٹھے کام کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی۔
یہ کووِڈ کے دنوں کی بات ہے۔ تب ایسا کرنا لازم تھا مگر بعد میں اِس کی ضرورت نہ رہی مگر بہت سے اداروں نے تھوڑے سے اخراجات بچانے کے لیے پالیسی تبدیل نہیں کی اور اب اِس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
ایرک شمٹ کا کہ مصنوعی ذہانت کے میدان میں آج گوگل پیچھے رہ گیا ہے تو اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ نئے اداروں میں جوش و جذبہ زیادہ ہے اور وہ مسابقت کو پسند کرتے ہیں جبکہ گوگل کی پالیسی یہ ہے کہ معاشی سرگرمیوں اور گھریلو زندگی کے درمیان توازن برقرار رکھا جائے۔
اسی پالیسی کے تحت گوگل نے اپنے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی سہولت فراہم کر رکھی ہے۔ اب گوگل کے ملازمین کے لیے ہفتے میں تین دن ہی دفتر آنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ باقی چار دن وہ گھر بیٹھے کام کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔
ایرک شمٹ کا کہنا تھا کہ آج کی ہنگامہ خیز دنیا میں مسابقت بہت زیادہ اور شدید تر ہے۔ ایسے میں اشتراکِ عمل کی غیر معمولی اہمیت ہے۔
اگر کسی ادارے کے ملازمین گھر بیٹھے کام کریں اور آپس میں میل جول ہی نہ رکھیں تو اُن میں کام کرنے کا جذبہ بالآخر سرد پڑتا چلا جاتا ہے۔ گوگل کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
ایرک شمٹ نے کہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں نئے اداروں نے بہتر کارکردگی اس لیے دکھائی ہے کہ اُن میں کام کرنے کا جذبہ بہت بلند سطح پر ہے۔ یہ ادارے مسابقت سے جان چھڑانے کے بجائے اِس کا سامنا کرتے ہیں اور یوں اُن کی صلاحیتیں نکھرتی جاتی ہیں۔
ایرک شمٹ کے نزدیک اوپن اے آئی اِس کی ایک بہترین مثال ہے۔ اس ادارے نے راتوں رات اس لیے ترقی کی ہے کہ اِس کے ملازمین مل کر کام کرتے ہیں، ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھتے ہیں، خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں اور دن رات اپنی کارکردگی کا گراف بلند کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔
Comments are closed on this story.