Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

فیض حمید کے غیرقانونی احکامات ماننے والے افسران کے خلاف بھی اسی طرح کا ایکشن لیا جائے گا، حارث نواز

ٹاپ سٹی کیس کی انکوائری وقت پر کی گئی ہوتی تو ہوسکتا ہے ایکشن کیا جاچکا ہوتا، بریگیڈئیر (ر) حارث نواز
شائع 13 اگست 2024 09:18pm

سابق وزیر داخلہ سندھ بریگیڈئیر (ر) حارث نواز کا کہنا ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کے غیرقانونی احکامات ماننے والے افسران کے خلاف بھی اسی طرح کا ایکشن لیا جائے گا، کیونکہ یہ بھی آرمی ایکٹ کے سیکشن 55 کی خلاف ورزی ہے۔

آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں گفتگو کرتے ہوئے بریگیڈئیر (ر) حارث نواز نے کہا کہ ان افسران کے بھی الزامات کی سنگینی کی بنیاد پر کورٹ مارشل ہوں گے، اگر الزامات کی سنگینی کی نوعیت کم ہوگی تو انکوائری کے درمیان ہی انہیں سزائیں دے دی گئی ہوں گی، لیکن اگر ضرور سمجھا جارہا ہوگا کہ کورٹ مارشل ہونا چاہئیے تو ضرور ہوگا، لیکن چونکہ فیض حمید ایک سینئیر آفیسر ہیں تو اس لئے ان کا علیحدہ کورٹ مارشل ہو رہا ہے۔

جنرل فیض کی گرفتاری فوج کا اندرونی معاملہ ہے، پی ٹی آئی سے کوئی سیاسی تعلق نہیں تھا، عمران خان

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کرنل (ر) انعام الرحیم نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی پروویژن سیکشن 92 کے تحت سروس کے دوران اگر آرمی کے کسی بھی افسر نے اپنے ساتھ اہلکاروں کو لوٹا ہے، انہیں مالی نقصان پہنچایا ہوگا یا ان کے وسائل پر قبضہ کیا ہوگا، یا عام شہریوں کے ساتھ ایسا کچھ کیا ہوگا تو یہ جرم ناقابل معافی ہے، اس پر وقت کی کوئی حد نہیں ہوگی، جب بھی شکایت آئے گی اس کا کورٹ مارشل کیا جائے گا۔

بریگیڈئیر (ر) حارث نواز کا کہنا تھا کہ کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران ملزم کو فئیر ٹرائیل کا پورا حق ہوتا ہے کہ اپنی صفائی اور اس کے حق میں ثبوت پیش کرے، استغاثہ اپنا کیس پیش کرتا ہے، اس کے بعد بورڈ بیٹھ کر حاصل جمع نکال کر فارمل تجویز دے دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جی ایچ کیو میں جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ ہے، جہاں پر پوری فوج کے لیگل برانچ جو کوالیفائیڈ ہوتے ہیں وہ بیٹھتے ہیں، وہ پوری چارج شیٹ کو دیکھ پر اسے منظور کرتے ہیں اس کے بعد آرمی چیف سے منظور کروا کر کارروائی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر دو الگ چارج شیٹ ہوں گی تو دو کورٹ مارشل ہوں گے، اس لئے یہ ایک ہی چارج شیٹ ہونی چاہئیے، جس کے دو سیکشن ہوں گے اسی کے تحت ٹرائل ہونا چاہئیے۔

فیض حمید کو سزا ہوئی تو کیا انہیں معافی کا موقع ملے گا؟

پروگرام میں گفتگو ہوئے سینئیر صحافی اور تجزیہ کار اعزاز سید کا کہنا تھا کہ ان ٹرائلز کی کارروائی خفیہ ہوتی ہے اور صرف پاکستان ہی نہیں عالمی سطح پر اس طرح کی کارروائیوں پر اعتراض اٹھایا جاتا ہے، فوج کی لیگل جیک برانچ کبھی اپنی ملٹری قیادت کے خلاف فیصلہ نہیں دیتی۔

اعزاز سید نے کہا کہ جنرل فیض حمید کا پی ٹی آئی سے تعلق بالکل واضح تھا، جب وہ کور کمانڈر پشاور تھے تو انہوں نے ایک مرتبہ اسلام آباد آکر عارف علوی، اسد قیصر اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کی تھی، حالانکہ کور کمانڈر کو کوئی کام نہیں کہ وہ پی ٹی آئی لیڈروں سے ملاقات کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ المیہ ہے کہ سسٹم اتنا کمزور ہے کہ 2017 کے واقعات پر کارروائی 2024 میں ہو رہی ہے۔

سیاسی پس منظر پر ہونے والے واقعات میں فیض حمید کا ہاتھ ہے، خواجہ آصف

اس کا جواب دیتے ہوئے بریگیڈئیر (ر) حارث نے کہا کہ ٹاپ سٹی کیس کی انکوائری بہت لیٹ کی گئی ہے، اگر یہ وقت پر کی گئی ہوتی تو ہوسکتا ہے ایکشن کیا جاچکا ہوتا۔

Faiz Hameed

Court Marshal

Top city Case