انسانی راز خلائی مخلوق تک پہنچانے کیلئے مصنوعی ذہانت کو خلا میں بھیجنے کا مطالبہ
فطری علوم و فنون کے بہت سے ماہرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے انسانی راز خلائی مخلوق تک پہنچائے جائیں۔ اس حوالے سے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا ایسا کرنا خطرے سے خالی ہوگا یا یہ کہ اس حوالے سے جو خطرات مول لیے جائیں گے کیا نتائج اُن کے مقابلے میں بہتر ہوں گے۔
نیو یارک پوسٹ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ خلائی مخلوق کی تلاش کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت سے مدد لی جاسکتی ہے اور لی جانی چاہیے۔ نیٹفلکس کے ہٹ شو تھری باڈی پرابلم کے تصورات پر مبنی یہ آئیڈیا معروف جریدے سائنٹیفک امریکن کے ایک مضمون میں پیش کیا گیا ہے۔
فرینک مارچِز سرچ فار ایکسٹرا ٹیریسٹریل انٹیلی جنس اینسٹیٹیوٹ میں سٹیزن سائنس کے ڈائریکٹر ہیں۔ اِگنیشیو جی لوپیز فرینکوز خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کے ریسرچ انجینیر ہیں۔
اِن دونوں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کجہ ہم نے غیر ارضی مخلوق یا ذہانت کی تلاش میں کم و بیش چار عشروں تک دن رات کام کیا ہے مگر اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے، ہمارے کسی بھی پیغام کا اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
فرینک مارچِز اور اِگنیشیو جی لوپیز فرینکوز کا کہنا ہے کہ کائنات اِس قدر وسیع ہے کہ ہم یہ دعوٰی بھی پورے تیقن سے نہیں کرسکتے کہ ہم اس کائنات میں تنہا جاندار ہیں۔
نیو یارک پوسٹ لکھتا ہے کہ یہ وقت غیر ارضی مخلوق کے لیے خلائے بسیط میں نئے اور جامع پیغامات بھیجنے کا ہے کیونکہ ایگزو پلانیٹس میں دنیا کے ماحول سے ملتے جلتے ماحول کے شواہد ملے ہیں جن سے یہ امید توانا ہوگئی ہے کہ ہم بہت جلد غیر ارضی مخلوق کا سراغ لگاسکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر ارضی مخلوق کو جو پیغامات بھیجے گئے ہیں وہ مضحکہ خیز حد تک سادہ رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو ڈھنگ سے بروئے کار لاتے ہوئے غیر ارضی مخلوق کے لیے جدید ترین نوعیت کے پیغامات بھیجے جائیں۔
غیر ارضی مخلوق کے لیے چیٹ ج پی ٹی کی طرز پر کوئی جدید ترین لینگویج لرننگ ماڈیول تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے ہم غیر ارضی مخلوق سے گفتگو کرسکتے ہیں اور اس راہ میں طویل فاصلے بھی رکاوٹ نہیں بن سکیں گے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ غیر ارضی مخلوق ہماری زبان سیکھ سکتی ہے، ایل ایل ایم سے ہمارے بارے میں سوال کرسکتی ہے اور جواب بھی پاسکتی ہے۔
Comments are closed on this story.