Aaj News

جمعہ, ستمبر 20, 2024  
15 Rabi ul Awal 1446  

برطانیہ میں نسلی فسادات کا منصوبہ بے نقاب، ہنگامہ آرائی کی نئی لہر کا خدشہ

نسلی فسادات کی تیاری کے پیش نظر اسپیشل پولیس کے ہزاروں اہلکاروں کو الرٹ کردیا گیا
اپ ڈیٹ 07 اگست 2024 11:25pm
فوٹو۔۔۔روئٹرز
فوٹو۔۔۔روئٹرز

برطانیہ میں نسلی فسادات کا منصوبہ بے نقاب ہوگیا ہے۔ رپورٹ کےمطابق دائیں بازو کے شدت پسند جماعتیں نسلی فسادات کی تیاری کر رہی ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق آنے والے دنوں میں ملک میں انتہائی دائیں بازو کے گروپ تیس سے زائد مقامات پر مظاہرے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اس حوالے سے ٹیلی گرام کے ذریعے برطانوی میڈیا کو موصول تفصیلات کے مطابق مظاہروں کے شرکاء بنیادی طور پر امیگریشن کے حوالے سے کام کرنے والے وکلا اور ان عمارتوں کو نشانہ بنائیں گے جہاں پناہ گزین مقیم ہیں۔

رپورٹ کے مطابق شدت پسند 100 سے زائد مقامات پر مظاہرہ کریں گے ۔ شدت پسند جماعتوں کے نسلی فسادات کی تیاری کے پیش نظر اسپیشل پولیس کے ہزاروں اہلکاروں کو الرٹ کردیا گیا ہے۔

برطانیہ میں بد امنی پر قابو پانے کے لیے ’اسٹینڈنگ آرمی‘ تعینات کرنے کا فیصلہ

واضح رہے کہ برطانیہ میں فسادات اور پر تشدد مظاہروں کا حالیہ سلسلہ تب شروع ہوا جب 29 جولائی کو برطانیہ کے شمال مغرب ميں واقع شہر ساؤتھ پورٹ ميں چاقو سے کیے گئے ایک حملے میں تین بچیاں ہلاک ہو گئیں۔ اس واقعے میں مزید پانچ بچے زخمی بھی ہوئے تھے۔

اس کے بعد سوشل میڈیا پر یہ جھوٹی افواہ پھیل گئی کہ اس واقعے میں مشتبہ حملہ آور ایک مسلمان اور پناہ گزین ہے۔ تاہم بعد میں یہ واضح ہوا کہ مشتبہ شخص دراصل ایک برطانوی شہری ہے، جس کی شناخت سترہ سالہ ايکسل روداکوبانا کے طور پر کی گئی۔ برطانوی میڈیا رپورٹوں کے مطابق ايکسل روداکوبانا کے والدین کا تعلق روانڈا سے ہے۔

برطانیہ میں ہوٹل پر حملہ، تارکینِ وطن کو زندہ جلانے کی کوشش

حکومت نے بدامنی پھیلانے والوں کو سزا دینے کے لیے فوری کارروائی کا وعدہ کیا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے 6,000 خصوصی پولیس اہلکاروں کو الرٹ کردیا گیا ہے، اب تک 400 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

جرمن نیوز ٹی وی ڈی ڈبلیو کے مطابق گرفتار افراد میں سے کئی کو منگل کو ایک جج کے سامنے پیش کیا گیا۔ ان میں شامل ایک انیس سالہ نوجوان کو دو ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے، ایک اور شخص کو ایک پولیس اہلکار پر حملہ کرنے کے اعتراف کے بعد سزا دی گئی۔ ایک پندرہ سالہ لڑکے نے، جس کی شناخت ایک ٹک ٹاک ویڈیو کے ذریعے کی گئی تھی، لورپول میں تشدد اور بد امنی کے واقعات میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ اسی طرح مزید ایک شخص نے فیس بک پر دھمکی آمیز پوسٹ کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس پوسٹ کا مقصد نسلی بنیادوں پر نفرت پھیلانا تھا۔

رپورٹ کے مطابق مسلمانوں اور پناہ گزینوں کےخلاف حالیہ مظاہروں اور فسادات کو برطانیہ میں گزشتہ تقریباﹰ ایک دہائی کے عرصے میں ہونے والی بدترین بد امنی قرار دیا جا رہا ہے۔ ان فسادات کے دوران مختلف شہروں میں مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا، گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور مساجد پر حملے کیے۔ انہوں نے کم از کم ایسے دو ہوٹلوں پر بھی حملے کیے جہاں پناہ گزین مقیم ہیں۔

United Kingdom

british police

ENGLAND RIOTS