بنگلہ دیشی جرنیلوں نے حسینہ کے مستقبل کا فیصلہ ایک رات پہلے کر لیا تھا
شیخ حسینہ کے ملک سے فرار ہونے سے ایک رات قبل بنگلہ دیشی آرمی چیف نے اپنے جرنیلوں سے ملاقات کی اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ فوج کرفیو کے دوران شہریوں پر گولیاں نہیں چلائے گی جس کا مطالبہ معزول وزیراعظم حسینہ واجد نے کیا تھا۔
فیصلے سے متعلق آگاہ دو حاضر سروس فوجی افسران نے غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ اجلاس کے بعد آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے حسینہ واجد کے دفتر کو یہ پیغام دیا کہ وہ کرفیو پرعمل درآمد کرانے سے قاصر ہیں۔ ایک بھارتی اہلکار نے اس معاملے پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حسینہ واجد فوج کی حمایت کھو چکی تھی۔
مکافات عمل، کل کی وزیراعظم آج بنی خانہ بدوش، بھارت نے بھی نکالنے کا عندیہ دیدیا
عسکری قیادت کی ملاقات اور حسینہ واجد کو پیغام کے بارے میں یہ تفصیلات اس سے پہلے رپورٹ نہیں کی گئیں۔ کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کے بعد صورتحال سنگین ہوگئی اور بنگلہ دیش میں سول نافرمانی کی تحریک نے جنم لے لیا۔ احتجاج کے بعد اب تک تقریباً 400 افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔
فوج کے ایک ترجمان نے اتوار کی شام ہونے والی بات چیت کی تصدیق کی۔ لیکن اس میٹنگ میں فیصلہ سازی کے بارے میں پوچھے جانے پر مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور ان کے بیٹے اور مشیر سجیب وازید سے بار بار درخواست کے باوجود تبصرہ کے لیے رابطہ نہیں ہو سکا۔
رائٹرز نے گزشتہ ہفتے کے واقعات سے واقف دس افراد سے بات کی، جن میں چار حاضر سروس فوجی افسران اور بنگلہ دیش میں دو دیگر باخبر ذرائع بھی شامل ہیں تاکہ حسینہ کی حکمرانی کے آخری 48 گھنٹوں کے دوران رونما ہونے والی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جاسکے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔
آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے حسینہ واجد سے حمایت واپس لینے کے اپنے فیصلے کی کھلے عام وضاحت نہیں کی۔ تاہم بنگلہ دیش کے تین سابق سینئر فوجی افسران کے مطابق مظاہروں کے پیمانے اور کم از کم 241 کی ہلاکتوں نے فوج کے لیے حسینہ واجہ کی ہر قیمت پر حمایت جاری رکھنا ناقابل برداشت بنا دیا۔
ایک ریٹائرڈ جنرل نے کہا کہ فوجیوں کے اندر کافی بے چینی پائی جاتی تھی جس کی وجہ سے آرمی چیف پر دباؤ پڑ سکتا تھا۔ ہفتے کے روز وقار الزمان حسینہ واجد کی حمایت میں ڈگمگائے تھےجب انہوں نے متعدد افسران سے خطاب کیا اور جانوں کی حفاظت اور صبر کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا۔
یہ پہلا اشارہ تھا کہ بنگلہ دیشی فوج نے فصیلہ کیا کہ پرتشدد مظاہروں کو زبردستی نہیں دبائے گی جو حسینہ واجد کے لیے ریڈ لائن تھے۔ ریٹائرڈ سینئر فوجی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے حسینہ واجد کے ملک سے فرار ہونے کے دن کرفیو کی خلاف ورزی کی، ایک سابق انفنٹری افسر نے کہا کہ فوج نے جو وعدہ کیا تھا وہ کر دکھایا۔
پیر کو ملک گیر غیر معینہ مدت کے کرفیو کے پہلے پورے دن حسینہ واجد کو دارالحکومت ڈھاکہ میں ان کی حفاظت والی سرکاری رہائش گاہ گنبھابن کے اندر چھپا لیا گیا۔
باہر، ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر جمع تھے۔ ایک بھارتی اہلکار اور دو بنگلہ دیشی ذرائع کے مطابق صورتحال قابو سے باہر ہونے کے بعد 76 سالہ حسینہ واجد نے پیر کی صبح ملک سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔
حسینہ اور اس کی بہن نے اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا اور دوپہر کے وقت بیرون ملک یعنی بھارت فرار ہوگئی۔
بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ نئی دہلی نے مختلف سیاسی قوتوں پر زور دیا تھا کہ وہ جولائی کے دوران بات چیت کے ذریعے صورتحال کو حل کریں لیکن جب پیر کو کرفیو کو نظر انداز کرکے ڈھاکہ میں ہجوم جمع ہوا تو حسینہ واجد نے سیکورٹی رہنماؤں کے ساتھ میٹنگ کے بعد استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔
جے شنکر نے کہا کہ حسینہ واجد نے مختصر نوٹس پر ہندوستان آنے کی منظوری کی درخواست کی تھی۔ ایک دوسرے بھارتی اہلکار نے کہا کہ ”سفارتی طور پر“ حسینہ کو بتایا گیا تھا کہ ڈھاکہ میں اگلی حکومت کے ساتھ دہلی کے تعلقات پر منفی اثر ڈالنے سے بچنے کے لیے ان کا قیام عارضی ہونا چاہیے۔
نوبل انعام یافتہ محمد یونس نے ایک اخبار کو بتایا کہ بھارت کے ”غلط لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں“ اور ان پر زور دیا کہ ”اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کریں۔“
Comments are closed on this story.