آئی پی پیز کو بھاری ادائیگیاں روکنے کیلئے سپریم کورٹ سے مدد طلب
اسلام آباد: سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ توانائی، پانی اور بجلی کی وزارتوں کے سیکریٹریز اور دیگر کو آئی پی پیز کو ادائیگیاں روکنے کی ہدایت کرے کیونکہ بجلی کی خریداری کے معاہدے آئینی فریم ورک کے خلاف ہیں۔
بزنس ریکارڈر کی رپورٹ کے مطابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور بار ایسوسی ایشن نے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت درخواست دائر میں کیبنٹ سیکرٹری، سیکرٹری وزارت پانی و بجلی، سیکرٹری وزارت توانائی، چیئرمین واپڈا کو فریق بنایا ہے۔
درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا کہ باوقار زندگی کی آئینی ضمانت کے باوجود ملک بھر میں شہری بجلی کے بے تحاشا بلوں، غیر اعلانیہ اور طویل لوڈ شیڈنگ اور ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لائنوں کی اوور لوڈنگ کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں جس کی وجہ سے بار بار جبری بندش کا سامنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاور سیکٹر کے اندر بدانتظامی کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے، جس نے نہ صرف معیار زندگی سے سمجھوتہ کیا ہے بلکہ شہریوں پر غیر پائیدار مالی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ڈال دیا ہے۔
درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کردہ پاور جنرل پالیسی 1994 اور اس کے بعد کی تمام پالیسیوں اور اس میں توسیع کو غیر آئینی اور پاکستان کی عوامی پالیسی کے خلاف قرار دے کر اس حد تک ختم کیا جائے۔
Comments are closed on this story.