Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

بنگلہ دیشی وزیراعظم کے اقتدار میں آخری لمحات کی کہانی سامنے آگئی

شیخ حسینہ آخر وقت تک طاقت استعمال کرنا چاہتی تھی پھر ایک بات نے بھاگنے پر مجبور کر دیا
شائع 06 اگست 2024 08:46am

بنگلہ دیش کی مستعفی ہونے والی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد اخر وقت تک مظاہرین کے خلاف سخت طاقت کا استعمال کرنا چاہتی تھیں لیکن پھر ایک بات نے انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا۔

حسینہ واجد کے اقتدار میں آخری ایک گھنٹے کی کہانی سامنے آگئی ہے۔

بنگلہ دیش کے اخبار پروتم آلو کے مطابق وزیراعظم حسینہ واجد مظاہرین کی خلاف طاقت کا استعمال کرنا چاہتی تھی اور انہوں نے پیر سے کرفیو اس وقت کرنے کے احکامات دیے تھے لیکن نو بجے کے قریب مظاہرین نے کرفیو توڑنا شروع کر دیا اس پر ایسی واجد نے تین سروسز چیف اور پولیس کے انسپیکٹر جنرل کو وزیراعظم ہاؤس میں طلب کیا۔

اجلاس کے دوران حسینہ واجد پر برس پڑیں ان کا کہنا تھا کہ مظاہرین کے خلاف خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ انہوں نے کہا کہ بکتر بند گاڑیوں پر چڑھنے والے مظاہرین کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی۔

اس دوران سروسز چیف اور آئی جی نے وزیراعظم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ حالات کنٹرول سے باہر ہو گئے ہیں۔ بنگلہ دیش کے ایک اخبار کا کہنا ہے کہ میٹنگ کے دوران حسینہ ماجد کے بیٹے سے بھی رابطہ کیا گیا اور انہوں نے بھی اپنی والدہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔

امریکا کا بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے قیام کا خیرمقدم

حسینہ واجد اقتدار فوج کے حوالے کرنے کو تیار نہیں تھی اور انہوں نے سروس سروسز چیف کو یاد دلایا کہ ان کی تقریریں انہوں نے ہی کی ہیں۔

خاندان سے صلاح و مشورے کے بعد حسینہ واجد استعفی دینے کو تیار ہو گئیں۔

تاہم اقتدار چھوڑنے سے پہلے وہ ایک تقریر ریکارڈ کرانا چاہتی تھیں۔ اس پر حسینہ واجد کو بتایا گیا کہ مظاہرین وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھ رہے ہیں اور انہیں وہاں پہنچنے میں 45 منٹ سے زیادہ نہیں لگیں گے اگر مظاہرین پہنچ گئے تو حسینہ واجد کو بھاگنے کا موقع نہیں ملے گا۔

یاد رہے کہ پیر کو یہ بات سامنے آئی تھی کہ فوج نے حسینہ واجد کو اقتدار چھوڑنے کے لیے 45 منٹ کا الٹی میٹم دیا ہے۔ یہی وہ الٹی میٹم تھا۔

بنگلہ دیشی عوام نے چیف جسٹس کا گھر توڑ دیا، عوامی لیگ دفتر اور مجیب الرحمان میوزیم نذرآتش

شیخ حسینہ واجد ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں جب وزیراعظم ہاؤس سے فرار ہوئی تو اس کے کچھ ہی دیر بعد ہزاروں افراد نے ان کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔

شیخ حسینہ جس ہیلی کاپٹر میں فرار ہوئیں اس نے پہلے بھارت میں اگر تلہ کے بی ایس ایف بیس پر لینڈنگ کی۔ اس کے بعد شیخ حسینہ وہاں سے دلی کی طرف روانہ ہوئی اور اور دلی کے قریب ہنڈن ایئرپورٹ پر اتریں۔

’شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ انڈیا کے لیے ویسا ہی دھچکا ہے جیسا امریکہ کے لیے افغانستان ثابت ہوا‘

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کے ماہر اقتصادیات محمد یونس نے دو روز قبل اںڈین میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بنگلہ دیش میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر انڈیا کی خاموشی پر دبے لفظوں میں تنقید کرتے ہوئے کہا تھا ’بنگلہ دیش کی دو تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ملک میں جمہوری آزادی کے خاتمے کے سبب یہ دو تہائی نوجوان کبھی ووٹ نہیں ڈال سکے، بنگلہ دیش میں جو بے چینی پھیل رہی ہے اس کا اثر اںڈیا پر بھی پڑے گا۔‘

کولکتہ میں مقیم سیاسی تجزیہ کار سوبحیت باگچی کہتے ہیں کہ ’انڈیا کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی غلطی یہ رہی کہ اس نے بنگلہ دیش میں اپنا سارا داؤ شیخ حسینہ اور ان کی پارٹی عوامی لیگ پر لگا دیا اور شیخ حسینہ کی شدید مخالفت کے سبب انڈین اسٹیبلشمنٹ نے اپوزیشن بی این پی اور جماعت اسلامی سے اپنا رابطہ توڑ لیا۔‘

بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ استعفیٰ دے کر بھارت فرار، فوج نے عبوری حکومت کا اعلان کردیا

باگچی کہتے ہیں کہ ’حسینہ کی پارٹی تیزی سے عوام میں غیر مقبول ہوتی جا رہی تھی، جمہوری ادارے ختم ہوتے جارہے تھے اور حکومت سے عوام کی نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔ چونکہ انڈیا شیخ حسینہ کا سب سے بڑا حمایتی تھا اسی لیے وہاں کی عوام انڈیا سے بھی اتنی ہی نفرت کرنے لگی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہی نہیں انڈیا امریکہ، برطانیہ اور پوری دنیا کو یہ باور کرواتا رہا ہے کہ اگر عوامی لیگ ہار گئی تو بنگلہ دیش انتہا پسندوں کے قبضے میں چلا جائے گا۔‘

’انڈیا کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت سے عوامی نفرت اس حد تک پہنچ جائے گی کہ انھیں اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہونا پڑ سکتا ہے۔ یہ انڈیا کے لیے ویسا ہی بڑا دھچکا ہے جیسا امریکیوں کے لیے افغانستان ثابت ہوا۔‘

انڈیا کا اگلا قدم کیا ہو گا؟

بنگلہ دیش میں اب ایک عبوری حکومت کے قیام کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ عوام کی شدید محالفت کے سبب عوامی لیگ کو اس نئی حکومت میں شامل کیا جائے یا نہیں، اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

سوبحیت باگچی کا خیال ہے کہ انڈیا اب بی این پی اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے بھی بات چیت شروع کرے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا اب افغانستان کی طالبان حکومت سے بات چیت کر رہا ہے تو پھر بی این پی اور جماعت اسلامی سے تعلقات بنانے میں کیا مشکل ہے۔‘

شیخ حسینہ واجد نے بھارت پہنچ کر کس سے ملاقات کی

’دوسری اہم بات یہ ہے کہ عوامی لیگ جماعت اسلامی کی طرح ایک ملک گیر سطح پر منظم جماعت ہے جس کے لاکھوں کارکنان ہیں اور یہ جماعت پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ اگرچہ اس کے خلاف اس وقت بے چینی ہے لیکن اگر اپوزیشن اقتدار میں آںے کے بعد اچھی کارکردگی نہ دکھا سکی تو مستقبل میں عوامی لیگ کے واپس آنے کے امکان کو خارج نہیں کیا جا سکتا ۔‘

پروفیسر شری رادھا دتا کہتی ہیں کہ ’انڈیا کے بنگلہ دیش سے تعلقات اتنے گہرے ہیں اور اس کا انحصار انڈیا پر اتنا زیادہ ہے کہ بی این پی اور جماعت اسلامی بھی انڈیا سے تعلقات خراب کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ تجارتی تعلقات اتنا بڑھ چکے ہیں کہ کوئی بھی حکومت خراب تعلقات نہیں چاہے گی۔ بنگلہ دیش کی کپڑے کی صنعت کا سارا خام مال انڈیا سے جاتا ہے۔‘

انڈیا کے لیے خطے میں چین کا مسئلہ

چین نے پچھلےچند برسوں میں جنوبی ایشیا میں بہت گہرا اثر و رسوخ ‍ ‍قائم کر لیا ہے۔

سبجیت باگچی کا کہنا ہے کہ ’چین اور امریکہ بحر ہند میں غلبہ حاصل کرنے کی دوڑ میں ہیں۔ امریکہ اس خطے میں اپنا بحری اڈہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور چین میانمار کے ذریعے اپنے بحری اور جنگی جہازوں کا اڈہ حاصل کر لے گا۔‘
بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کو برخاست کرنے کا فیصلہ، ہماری تجویز کے بغیر عبوری حکومت قبول نہیں، طلبہ تحریک کا اعلان

وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا شیخ حسینہ کی مدد سے چین کا توڑ حاصل کرنے کی کوشش میں تھا۔ شیخ حسینہ کے جانے کے بعد اس ضمن میں انڈیا کی تشویش اور بڑھ جائے گی۔‘

Bangladesh

Bangladesh Protest

bangladesh clash

BANGLADESH RIOTS

BANGLADESHI PRIME MINISTER

BANGLADESHI ARMY CHIEF