آئی پی پیز معاہدوں سے کیسے نمٹا جائے، نیپرا نے رائے دے دی
اسلام آباد: آئی پی پیز کے معاہدوں پر اتھارٹی کے اندر اختلاف رائے کو تسلیم کرتے ہوئے نیپرا نے پاور ڈویژن کو معاہدوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جبکہ اس بات پر زور دیا کہ خودمختار معاہدے یکطرفہ طور پر نہیں کھولے جا سکتے لیکن اسپانسرز سے درخواست کی جا سکتی ہے۔
بزنس ریکارڈر کی رپورٹ کے مطابق آئی پی پیز کے معاہدوں کا معاملہ نیپرا میں سی پی پی اے ایف سی اے ایڈجسٹمنٹ کی درخواست پر عوامی سماعت کے دوران اٹھایا گیا تھا۔ سی پی پی اے- جی نے جون 2024 کے لیے 2.63 روپے فی یونٹ کی ایڈجسٹمنٹ مانگی ہے۔
سی پی پی اے- جی کے سی ای او کے مطابق صارفین جولائی کے بلوں میں 3.33 روپے فی یونٹ ایف سی اے ادا کریں گے لیکن وہ اگست 2024 میں فی یونٹ 2.63 روپے ادا کریں گے۔
آئی پی پیز کے معاہدوں کو کھولنے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں چیئرمین نیپرا وسیم مختار نے کہا کہ پاور ڈویژن آئی پی پیز کے معاہدوں سے نمٹتا ہے، جس میں ریگولیٹر مدد کر سکتا ہے لیکن صرف اس صورت میں جب ڈویژن اسے آگے بڑھانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ ریگولیٹر اس سلسلے میں اپنے طور پر کچھ نہیں کر سکتا۔
انہوں نے پوچھا کہ کیا ممبر امینہ احمد اپنے بیان میں اضافہ کرنا چاہتی ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ آئی پی پیز کے معاہدوں کے جائزے میں اتھارٹی کے قانونی کردار پر اختلاف ہے اور دعویٰ کیا کہ آئی پی پیز کے ساتھ خودمختار معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں، جنہیں یکطرفہ طور پر نہیں کھولا جا سکتا، لیکن آئی پی پیز کے سپانسرز سے درخواست کی جا سکتی ہے۔
مزید کہا گیا کہ سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہوں گے اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ملک بعد کی تاریخ میں معاہدوں پر سوال اٹھا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی پی پیز کے معاہدوں پر حکومت نے دستخط کیے تھے، صحیح یا غلط۔ اب ہم ان معاہدوں کو یکطرفہ طور پر نہیں کھول سکتے۔ حکومت صرف ان سے تعاون کی درخواست کر سکتی ہے۔
اتھارٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ جون 2023 کے مقابلے میں جون 2024 میں بجلی کی طلب میں 11 فیصد کمی ہوئی ہے، جب کہ طلب میں سال بہ سال کی بنیاد پر 2 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ بڑے پیمانے پر کمی کی ایک وجہ گھریلو اور صنعتی پولرائزیشن میں اضافہ تھا۔
رکن نیپرا مطہر نیاز رانا نے دلیل دی کہ جب مارکیٹ میں اسٹوریج کی نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائی جا رہی ہے تو حکومت کو پروڈیوسرز کے ساتھ طویل مدتی (25-30 سال) کے معاہدے نہیں کرنے چاہئیں۔
ریحان اختر نے واضح کیا کہ نئے آئی جی سی ای پی کے تحت کسی نئے معاہدے کی اجازت نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ صرف موجودہ وعدوں کو پورا کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی تجویز دی گئی کہ ملک کے ٹیرف ڈھانچے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے ٹیرف کم کیے جا سکیں کیونکہ موجودہ ٹیرف ڈھانچہ زیادہ استعمال کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ پاور ڈویژن تمام درآمدی ایندھن پر مبنی مہنگے پاور پلانٹس کو بند کرنے کی تجویز پر کام کر رہا ہے۔
Comments are closed on this story.