Aaj News

منگل, نومبر 05, 2024  
02 Jumada Al-Awwal 1446  

پاکستان میں صحت کے شعبہ کو تحقیق اور ادویات کی کمی کا چیلنج

اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
شائع 31 جولائ 2024 05:21pm

پاکستان کے ہیلتھ کیئر سیکٹر کو ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (آر اینڈ ڈی) یعنی تحقیق اور ترقی کی کمی اور معیاری ادویات کی ناقص رسائی کی وجہ سے شدید چیلنجز کا سامنا ہے، اسٹارٹ اپ کے بانیوں کا کہنا ہے کہ ہم اس وقت ملک کے صحت کی دیکھ بھال کے مسائل کو حل کرنے میں مصروف ہیں۔

میڈ آئی کیو سلوشنز کی بانی اور جنرل مینیجر ڈاکٹر سائرہ صدیقی نے ملک میں آر اینڈ ڈی کی نازک حالت پر زور دیا۔

ان کے اس اسٹارٹ اپ نے اپریل 2022 میں ہوئی ابتدائی فنڈنگ ​​میں 1.8 ملین ڈالر اکٹھے کیے جانے کا اعلان کیا تھا۔

اب اس اسٹارٹ اپ کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ صارفین کو صحت کی خدمات فراہم کرنے والوں سے جوڑتی ہے، اور پاکستان کی پہلی مربوط بزنس ٹو بزنس (B2B) ورچوئل کیئر پلیٹ فارم ہے جو کسی کمپنی یا بیمہ کنندہ کو ورچوئل نگہداشت فراہم کرتی ہے۔

تاہم، اس کی بانی نے کہا کہ جدت کے معاملے میں پاکستان پیچھے ہے۔

انہوں نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ ’پاکستان نئے علاج اور اختراعی علاج متعارف کروانے میں ان دیگر مارکیٹوں کے مقابلے میں پیچھے ہے جن میں میں نے کام کیا ہے۔‘

یہ فرق بنیادی طور پر آر اینڈ ڈی میں محدود سرمایہ کاری، ریگولیٹری چیلنجز اور کلینکل ٹرائلز کو سپورٹ کرنے کے لیے ناکافی انفراسٹرکچر کی وجہ سے ہے۔

اگرچہ مقامی اور بین الاقوامی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے درمیان خاص طور پر کووڈ کے دوران کچھ تعاون ہوا ہے، لیکن پیش رفت میں نمایاں کمی آئی ہے۔

این آئی سی وی ڈی میں لاکھوں مالیت کی ادویات چوری کا انکشاف

ایک اور ہیلتھ کیئر اسٹارٹ اپ ”صحت کہانی“ کی شریک بانی اور سی او او ڈاکٹر عفت ظفر آغا نے بھی اس نظریے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں زیادہ تر فارماسیوٹیکل ایجادات ملٹی نیشنل کارپوریشنز سے آتی ہیں جو بڑی، زیادہ منافع بخش مارکیٹوں کو ترجیح دیتی ہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ’’پاکستان میں شاید ہی کوئی نئی تحقیق ہو رہی ہو جس میں ادویات کی دریافت ہو رہی ہو۔

خاطر خواہ مقامی آر اینڈ ڈی میں سرمایہ کاری کی عدم موجودگی کا مطلب ہے کہ جدید ترین علاج پاکستانی مریضوں تک پہنچنے میں سست روی کا شکار ہے، جس سے صحت کی دیکھ بھال کے بحران میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس مسئلے کو ضروری ادویات کی شدید قلت مزید پیچیدہ بناتی ہے، اور ڈاکٹر سائرہ صدیقی نے اس مسئلے کو جان لیوا قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’خون کا کینسر اور لیوکیمیا اب بہت عام ہے، لیکن کیموتھراپی ہمیشہ خاص طور پر بچوں کے لیے مختصر ہوتی ہے۔ میں نے بہت سے بچوں کو مرتے دیکھا ہے کیونکہ ان کے والدین اسے خرید نہیں سکتے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’سادہ فلو کی دوائی ”Tamiflu (Oseltamivir)“ کی سپلائی ہمیشہ شارٹ ہوتی ہے، اور درآمد کرنے کے بعد بلیک میں فروخت کی جاتی ہے۔ Epival ایک مرگی کی دوا ہے، جو ہمیشہ شارٹ ہوتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسی دائمی بیماریوں کی دوائیں اکثر بڑے پیک میں آتی ہیں جو بہت سے مریضوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہیں اور ان کے علاج کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔

سائرہ صدیقی نے کہا کہ ’لوگوں کے پاس مکمل پیک خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اگر پیک کھولا جائے تو دوائیوں کی افادیت متاثر ہو جاتی ہے۔ میں نے لوگوں کو آدھی بوتل یا ایک پتہ دینے کی بھیک مانگتے دیکھا ہے کیونکہ وہ پورے پیک کی ادائیگی نہیں کر سکتے۔‘

’لہٰذا چھوٹی پیکیجنگ سے مدد مل سکتی ہے۔‘

ڈاکٹر آغا، جن کے اسٹارٹ اپ ”صحت کہانی“ نے دسمبر 2023 میں سیریز اے راؤنڈ میں 2.7 ملین ڈالر اکٹھا کرنے کا اعلان کیا، انہوں نے سپلائی چین کی ناکاریوں اور قیمتوں کے سخت ضوابط کو ادویات کی قلت میں اہم کردار ادا کرنے کا باعث قرار دیا۔

لاہور میں ادویات کی قلت، مریض خوار

صحت کہانی کا کہنا ہے کہ اس کی ٹیکنالوجی 60 سیکنڈ میں ڈاکٹروں اور مریضوں کے درمیان ورچوئل کنکشن کو یقینی بناتی ہے۔

یہ پلیٹ فارم آن ڈیمانڈ، گھر پر یا آن پریمیسس لیبارٹری کی خدمات اور آن لائن ادویات کی فراہمی پیش کرتا ہے، جس میں ملک گیر بزنس ٹو بزنس کلائنٹس، بزنس ٹو کسٹمر صارفین، اور دیہی علاقوں میں زیرِ خدمت آبادی شامل ہے۔

اسٹارٹ اپ کا کہنا ہے کہ سپلائی چین کے چیلنجز، بشمول ڈسٹری بیوشن اور لاجسٹکس کے مسائل، ضروری ادویات کی وقتاً فوقتاً قلت کا باعث بن سکتے ہیں۔

اس کا مزید کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے نافذ کردہ قیمتوں کے کنٹرول کا مقصد اگرچہ ادویات کو سستی بنانا ہے، لیکن بعض اوقات اس سے مینوفیکچررز کے لیے بعض دوائیں تیار کرنا یا درآمد کرنا ناقابل عمل ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قلت پیدا ہوتی ہے۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ پاکستان کا فارما سیکٹر پانچ سالوں میں برآمدات کو 3 بلین ڈالر تک بڑھا سکتا ہے، لیکن اسے ’پالیسی اور حکومتی تعاون کی ضرورت ہے‘۔

اس کی وجہ سے بہت سی ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیاں پاکستانی مارکیٹ سے نکل رہی ہیں ، جو اس شعبے کی ترقی کے لیے نقصان دہ ہے۔

دونوں عہدیداروں نے نئے علاج کے تعارف میں ایک اہم رکاوٹ کے طور پر ریگولیٹری چیلنجوں کی نشاندہی کی۔

ڈاکٹر سائرہ صدیقی نے پاکستان میں سست اور کم شفاف ریگولیٹری عمل پر روشنی ڈالی، جس کا انہوں نے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور برطانیہ جیسے ممالک میں زیادہ موثر نظاموں سے موازنہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے فارماسیوٹیکل سیکٹر میں ریگولیٹری ماحول تیار ہو رہا ہے لیکن اسے اب بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔

ڈاکٹر آغا نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (DRAP) دوسرے ممالک کے ریگولیٹری اداروں کے مقابلے میں زیادہ وقت لے سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ریگولیٹری منظوری کے عمل سست اور کم پیش گوئی کے قابل ہو سکتے ہیں، جو نئی دوائیوں کو مارکیٹ میں داخل ہونے میں لگنے والے وقت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔‘

نفاذ میں عدم مطابقت اور بیوروکریٹک رکاوٹیں صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتی ہیں، جس سے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے لیے ریگولیٹری منظر نامے پر آنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ان مسائل سے نمٹنے کے لیے دونوں عہدیداروں نے کئی حکمت عملیوں کی تجویز پیش کی۔

82 سے زائد مختلف اقسام کی جعلی ادویات کی تیاری کا انکشاف

ڈاکٹر صدیقی نے ریگولیٹری عمل کی کارکردگی اور شفافیت کو بڑھانے، ترغیبات کے ذریعے R&D میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور حکومت، نجی شعبے اور بین الاقوامی شراکت داروں کے درمیان تعاون کو فروغ دینے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی تعلیمی اداروں کے ساتھ مراعات، سبسڈیز اور شراکت داری کے ذریعے تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا جدت کو فروغ دے سکتا ہے۔ مزید برآں، کلینکل ٹرائلز اور مینوفیکچرنگ کو سپورٹ کرنے کے لیے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا ضروری ہے۔

ڈاکٹر آغا نے ریگولیٹری فریم ورک کو مضبوط بنانے، کوالٹی کنٹرول کے اقدامات کو بڑھانے اور سپلائی چین کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ ’اعلیٰ معیار کی ادویات کی پیداوار اور تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے کوالٹی کنٹرول کے سخت اقدامات کو نافذ کرنے سے جعلی ادویات کے پھیلاؤ کو کم کیا جا سکتا ہے‘۔

ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تو نقصان مریض اٹھائے گا

انہوں نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینے اور صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد کی تعلیم اور تربیت میں سرمایہ کاری کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا تاکہ جدت طرازی اور صحت کی دیکھ بھال کے مجموعی معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔

پاکستان

Pakistan's Health Care System

Sehat Kahani

MED IQ Solutions