’مسکن کے مکین خوشحال تھے، صحن میں مورناچتے تھے‘
نانک شاہی اینٹ سے تعمیرکی گئی سجھان سنگھ کی محل نما حویلی کئی کنال پرمحیط ہے۔ حویلی کیلئے لوہا اورتانبہ برطانیہ سے منگوایا گیا۔ کشمیرسے لکڑی منگوا کا کشیدہ کاری کی گئی مگرعمارت کی آن بان اور شان کوعدم توجہی اورلاپرواہی نے خاک میں ملا دیا۔
اس مسکن کے مکین خوشحال تھے، صحن میں مورناچتے تھے، شیرکی دھاڑ بھی سنائی دیتی توشام ڈھلے سریلی موسیقی بھی بکھیرتے تھے لیکن یہ سب ایک سو 25 سال پہلے کی کہانی ہے ، یہ حویلی 1893ء میں سجھان سنگھ نے بنائی ، محل نماء حویلی کئی کنال پرمحیط ہے۔
45 کمروں کی یہ حویلی 1947ء تک سجان سنگھ خاندان کے زیراستعمال رہی جس کے بعد 1982ء تک 40 سے زائد کشمیرمہاجرین کوالاٹ کی گئی 1982 کے بعد سے یہ عمارت اپنی آن بان شان کی مثل تھی جواب سوگ کی داستان سنا رہی۔
راولپنڈی کی بے مثل اورشاہکارتعمیر کی یہ پہلی حویلی ہے جس کیلئے لوہا اورتانبہ برطانیہ سے منگوایا گیا ، نانک شاہی اینٹ سے دیواریں اورگلیاں بنائیں گئیں ، کشمیرسے لکڑی منگوا کا کشیدہ کاری کی گئی لیکن سب کچھ لاپرواہی کی دھول چاٹ گئی جو بچا وہ عدم توجہی نے خاک میں ملا دیا۔
جس طرح بادشاہت ماضی کا حصہ ہوئی تواسی طرح ان کی باقیات بھی قصہ پارینہ کی تصویربنی کھڑی ہے۔
Comments are closed on this story.