بنگلہ دیشی حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے مگر طلبہ اب بھی قابو میں نہیں
دو ہفتوں سے جاری پُرتشدد احتجاج کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت نے طلبہ تحریک کا بنیادی مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمتوں میں نام نہاد فریڈم فائٹرز کی اولاد اور پچھڑے ہوئے طبقات کے لیے مختص کوٹہ ختم کرتے ہوئے اب صرف 7 فیصد کوٹہ رہنے دیا ہے۔ تین دن قبل آنے والا سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد نے قبول کرلیا ہے۔
ایک بنیادی مطالبے پر حکومت کے جھک جانے پر بھی طلبہ تحریک دم توڑتی دکھائی نہیں دے رہی۔ احتجاجی طلبہ کا مطالبہ ہے کہ ملک بھر سے کرفیو ختم کیا جائے، انٹرنیٹ سروس بحال کی جائے اور تمام تعلیمی ادارے کھل دیے جائیں۔ انٹرنیٹ سروس جزوی بحال کردی گئی ہے۔
طلبہ تحریک کے احتجاجی مظاہروں کے دوران اور جھرپوں میں 600 سے زائد طلبہ اور دیگر افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ اُن کی رہائی کے حوالے سے اب تک کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔ طلبہ تحریک نے بنیادی مطالبات پیش کرتے ہوئے اِن کی رہائی پر بھی زور نہیں دیا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمتوں کے کوٹے سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرلیے جانے پر بھی امن کی بحالی کے آثار نہیں۔
یاد رہے کہ ملک بھر میں طلبہ کے احتجاج کے دوران 150 سے زائد اموات واقع ہوچکی ہیں۔ چند پولیس اہلکار بھی مارے گئے ہیں اور ہزاروں زخمیوں میں ایک ہزار پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
بنگلہ دیش کی وزیرِاعظم نے ایک ہفتہ قبل فوج کو حکم دیا تھا کہ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر آنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مار جائے۔ آرمی چیف نے یہ حکم ماننے سے معذرت کرلی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنے ہی ملک کے بیٹوں اور بیٹیوں پر گولی نہیں چلائی جاسکتی۔
دو ہفتوں سے جاری بدامنی کے باعث ملک بھر میں کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہیں۔ ڈھاکہ سمیت تمام بڑے شہروں میں کرفیو کے باعث دفاتر، فیکٹریاں، شاپنگ مال اور دیگر کاروباری مقامات بند ہیں۔
حکومت کا مخمصہ بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ کبھی وہ اپوزیشن پر الزام لگاتی ہے کہ وہ طلبہ تحریک کو ہائی جیک کرکے حکومت کو گرانے کے درپے ہے اور کبھی کسی بیرونی ہاتھ کا ذکر کرتی ہے۔
واضح رہے کہ بنگلہ دیش سے متصل بھارت کی مشرقی ریاست مغربی بنگال کی وزیرِاعلیٰ ممتا بینرجی نے چار دن قبل کہا تھا کہ اگر بنگلہ دیش میں حالات بہت ابتر ہوجائیں تو اُن کی حکومت وہاں سے آنے والے پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس پر بنگلہ دیشی حکومت نے شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے نئی دہلی کو احتجاجی مراسلہ بھی بھیجا ہے۔ ۔۔۔۔۔
Comments are closed on this story.