Aaj News

ہفتہ, ستمبر 07, 2024  
02 Rabi ul Awal 1446  

وسائل ختم ہوگئے، کوئی مدد کو نہیں آرہا، بنگلہ دیش میں پھنسے پاکستانی طلبہ کی گفتگو

بنگلہ دیش میں موجود پاکستانی طلبہ کو نکالنے اور ان کی مدد کے لیے والدین نے وزیراعظم کو خط لکھ دیا۔
اپ ڈیٹ 21 جولائ 2024 04:09pm

بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک نے خطرناک شکل اختیار کرلی ہے۔ پورا ملک ہنگاموں کی لپیٹ میں ہے۔ حکومت نے کرفیو نافذ کردیا ہے مگر سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ قابو میں نہیں آرہے۔

بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستان طالب علم حذیفہ نے آج نیوز سے گفتگو میں بتایا ہے کہ کوئی مدد کو نہیں آرہا۔ وسائل ختم ہوچکے ہیں۔ شدید مشکلات درپیش ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت، نیپال اور دیگر ممالک اپنے طلبہ اور دیگر باشندوں کو بنگلہ دیش سے نکالنے کا عمل شروع کرچکے ہیں۔

آج نیوز سے گفتگو میں حذیفہ نے مزید بتایا کہ پاکستانی طلبہ نے ڈھاکہ میں ہائی کمیشن سے بھی رابطہ قائم کیا ہے۔ شدید غیر یقینی کیفیت برقرار ہے۔ ہاسٹل بند کردیے گئے ہیں اور وہاں قیام پذیر طلبہ سے کہا جارہا ہے کہ کہیں اور چلے جائیں۔

بہت سے طلبہ اپنے اہلِ خانہ سے رابطے میں بھی نہیں ہیں جس کے باعث وہ شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔

بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانی طلبہ کے والدین نے وزیراعظم سے مدد کی اپیل کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایڈیشنل سیکریٹری ٹو پی ایم کو خط لکھا ہے۔

اسلام آباد سے آج نیوز کے نمائندے طارق چودھری کی رپورٹ کے مطابق والدین نے وزیرِ اعظم کے نام خط میں لکھا ہے کہ ہمارے بچے بنگلا دیش کے میڈیکل کالجوں میں زیرِتعلیم ہیں۔ وہاں امن و امان کا مسئلہ ہے۔ حالات دن بہ دن بگڑتے ہی جارہے ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت نے ملک کے بیشتر حصوں میں کرفیو نافذ کردیا ہے۔

حکومت نے ڈھاکہ اور دیگر شہروں کے ہاسٹلز سے بھی طلبہ کو نکال دیا ہے۔ پاکستانی طلبہ اپنے اپنے ہاسٹلز کے احاطے میں محصور ہیں۔ والدین نے درخواست کی ہے کہ بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمشنر سے رابطہ کیا جائے۔

آج نیوز کو حاصل ہونے والی اطلاعات کے مطابق ڈھاکہ میں 48، چٹوگرام (چٹاگانگ) میں 31، میمن سنگھ میں 9، کومیلا میں 8، راج شاہی میں 7، سلہٹ میں 4، بوگرا میں 4، غاری پور میں 4، منی گنج میں 2 جبکہ دیناج پور اور رنگ پور میں ایک ایک پاکستانی طالب علم موجود ہے۔

والدین نے کرفیو کے باعث اشیائے خور و نوش کی قلت کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام پاکستانی طلبہ کی جلد از جلد وطن واپسی ممکن بنائی جائے اور ان کے لیے خوراک کا بندوبست کیا جائے۔

والدین کا مطالبہ ہے کہ پاکستانی ہائی کمشنر طلبہ کی سیکیورٹی کا اہتمام کریں۔ والدین نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ تمام طلبہ سے رابطہ ممکن بنایا جائے۔

بنگلہ دیش کے طول و عرض میں طلبہ کی تحریک انتہائی خطرناک شکل اختیار کرگئی ہے۔ کئی مقامات پر طلبہ اور فوج آمنے سامنے ہیں۔ طلبہ نے کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی شہروں میں ریلیاں نکلی ہیں۔

فوج کو حکم دے دیا گیا ہے کہ کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے تاہم فوج اور پولیس اس حکم کی مکمل تعمیل سے گریز کر رہی ہے۔ کئی مقامات پر فوج کی گاڑیوں سے لوگ ذرا بھی خوفزدہ نہیں ہوئے اور پتھراؤ کرکے واپس جانے پر مجبور کردیا۔

بنگلہ دیش کے طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا مگر اب یہ احتجاج عوامی لیگ کی سربراہ وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی تحریک میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعتیں انتخابی دھاندلیوں کے الزامات عائد کرتی آئی ہیں۔ جنوری میں شیخ حسینہ واجد مسلسل چوتھی بار ملک کی وزیرِاعظم منتخب ہوئیں۔ الیکشن میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے حصہ نہیں لیا تھا۔

تیزی سے بگڑتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر بھارت، نیپال، بھوٹان اور میانمر کے طلبہ نے بھی وطن واپسی شروع کردی ہے۔ بھارت کے ایک ہزار سے زائد طلبہ کولکتہ کے راستے واپس پہنچ چکے ہیں۔

بھارت، نیپال اور بھوٹان کے سیکڑوں طلبہ بنگلہ دیش سے ملحق شمال مشرقی بھارتی ریاست میگھالیہ کے ذریعے بنگلہ دیش سے نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

ان میں سے بیشتر نے پرائیویٹ ٹیکسیوں کے ذریعے سرحد تک کا سفر کیا۔ بنگلہ دیش میں ٹرین سروس بند پڑی ہے اور بس سروس کی راہ میں رخنے ہیں۔

بنگلہ دیش میں سرکاری نشریاتی اداروں کے لیے بھی کام کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ مظاہرین نے تین دن قبل سرکاری ٹی وی کی عمارت کو آگ لگادی تھی۔ ایک جیل پر حملہ کرکے تمام قیدیوں کو چھڑالیا گیا تھا۔ سیل فون اور انٹرنیٹ سروس کی بندش سے کروڑوں افراد کو رابطوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

evacuation

Pakistani Students

LETTER TO SECRETARY PM