سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں کب کیا ہوا؟
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کی اپیلوں کے کیس میں کب کیا ہوا؟ کس جماعت کو کتنی اضافی مخصوص نشستیں ملی تھیں جو معطل ہوئیں؟ سماعت کا مختصر احوال درجِ ذیل ہے۔
معاملہ کب شروع ہوا؟
یہ معاملہ تب شروع ہوا جب سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے 21 فروری کو الیکشن کمیشن سے رجوع کیا، 27 فروری کو مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم فریق بنے۔
28 فروری کو الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر فیصلہ محفوظ کیا۔
4 مارچ کو الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست پر 1-4 کے تناسب سے فیصلہ سنایا اور قرار دیا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔
الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم، پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی اہل ہے: سپریم کورٹ
الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کے حصے کی نشستیں بھی دوسری جماعتوں کو دے دیں، نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے پرالیکشن کمیشن کے ایک ممبرنے اختلاف کیا تھا۔
6 مارچ کو سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے پشاورہائیکورٹ سے رجوع کیا، 14 مارچ کو پشاور ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں کے لیے دائردرخواستیں خارج کیں۔
پشاورہائیکورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کیا۔
2 اپریل کو مخصوص نشتوں کے لیے سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔
6 مئی کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کی حد تک پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا جبکہ 3 رکنی بینچ نے آئینی معاملہ ہونے کے باعث لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججز کمیٹی کو بھیج دیا۔
31 مئی کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کے لیے 13 رکنی فل کورٹ تشکیل دیا گیا۔
فل کورٹ بینچ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ جسٹس منیب اختر، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید، جسٹس اظہر حسن رضوی، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عرفان سعادت، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس امین الدین شامل ہیں۔
فل کورٹ نے 3 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی پہلی سماعت کی، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے 9 سماعتوں کے بعد 9 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا جبکہ سماعتیں یو ٹیوب اسٹریمنگ کے ذریعے براہِ راست نشر کی گئیں۔
سنی اتحاد کونسل کا مؤقف
دورانِ سماعت سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مجموعی طور پر 77 متنازع نشستیں ہیں، یہ 77 مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہیئے تھیں مگر دیگر جماعتوں کو ملیں، 77 نشستوں میں قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی اسمبلیوں کی 55 نشستیں شامل ہیں۔
کس جماعت کو کتنی اضافی مخصوص نشستیں ملیں؟
الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد 77 متنازع مخصوص نشستوں کو معطل کر دیا تھا، کُل 77 متنازع نشستوں میں سے 22 قومی اور 55 صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں ہیں۔
پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کی مخالف کن ججوں نے کی، جسٹس عیسیٰ کا ووٹ کس پلڑے میں
الیکشن کمیشن پاکستان نے 13مئی کے نوٹیفکیشن کے ذریعے ان نشستوں کو معطل کر دیا تھا۔
قومی اسمبلی کی معطل 22 نشستوں میں پنجاب سے خواتین کی 11، خیبر پختون خوا سے 8 سیٹیں شامل ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں معطل نشستوں میں 3 اقلیتی مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں۔
قومی اسمبلی میں ن لیگ کو 14، پیپلز پارٹی کو 5، جے یو آئی ف کو 3 اضافی نشستیں ملی تھیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں 21 خواتین اور 4 اقلیتی مخصوص نشستیں معطل ہیں جن میں سے جے یو آئی ف کو 10، مسلم لیگ ن کو 7، پیپلز پارٹی کو 7، اے این پی کو 1 اضافی نشست ملی تھی۔
مخصوص نشستوں کا کیس: ثابت ہوچکا الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کی، سپریم کورٹ
پنجاب اسمبلی میں 24 خواتین کی مخصوص نشستیں اور 3 اقلیتی نشستیں معطل ہیں، جن میں سے ن لیگ کو 23، پیپلز پارٹی کو 2، پی ایم ایل ق اور استحکامِ پاکستان پارٹی کو ایک ایک اضافی نشست ملی تھی۔
سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا
سندھ اسمبلی سے 2 خواتین کی مخصوص نشستیں اور 1 اقلیتی نشست معطل ہیں جہاں پیپلز پارٹی کو 2 اور ایم کیو ایم کو 1 مخصوص نشست ملی تھی۔
گزشتہ روز فیصلہ محفوظ ہوا
سپریم کورٹ نے گزشتہ روز سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا جسے سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
Comments are closed on this story.